کرغزستان کی یونیورسٹیاں یا پھر ڈاکٹر ساز منڈیاں ؟؟؟

45

تحریر:سجل ملک( راولپنڈی)
حالیہ دنوں میں پاکستان ٹی وی چینلز اخبارات اور سوشل میڈیا پر کرغزستان کا نام مسلسل نظر آ رہا ہے اور وجہ وہاں پر موجود پاکستانی میڈیکل کے طلبہ و طلبات پر تشدد ہے جو وہاں کے مقامی لوگوں نے کیا۔ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو شاید میں بھی باقی سارے پاکستان کے لوگوں کی طرح نا علم ہی رہتی اور کرغزستان کے بارے میں اور وہاں کی میڈیکل یونیورسٹیوں کے بارے میں نہ جان سکتی اور یہ سچ ہے کہ میں ہوں یا پھر پاکستان کے دوسرے بہت سے پاکستانی ہم یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ کرغزستان کون سی اور کیسی ریاست ہے وہاں کے لوگوں کا طرز و بودباش معاشیات پیشہ اور تعلیم و تربیت کیسی ہے اور اخلاقی معاشی طور پر یہ خطہ کس صورتحال سے دوچار ہے یہاں تک کہ وہ والدین بھی اس بارے میں کوئی جان پڑتال نہیں کرتے جو اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو کرغزستان جیسے خطے میں اعلی ترین دلوانے بھیجتے ہیں جہاں سے انہیں مسیحا بن کر واپس آنا ہوتا ہے ۔
بالکل بھی نہیں جانتے اور نہ سوچتے ہیں کہ اس ملک کی اخلاقی معاشی حالت پر تھوڑا جان لیں آخر اپنے لخت جگر کو ہی نہیں بھیج رہے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی بھی اس کے ساتھ بھیج رہے ہیں تو یہاں پر مختصر عرض کرتی چلوں کہ کرغزستان انتہائی پسماندہ خطہ ہے یہ ترقی پذیر ممالک کی لسٹ میں بہت پیچھے ہے روزی روٹی کے چکر میں ایک تہائی آبادی دوسرے ملکوں کا رخ کرتی ہے اور باقیوں کا زیادہ تر انحصار جسم فروشی پر ہے جو چند سو پاکستانی روپیوں کے عوض عام ہےاور یہاں کے مرد زیادہ تر دلالی کرتے ہیں لیکن اگر ریکارڈ چیک کیا جائے تو پچھلی دو تین دہائیوں سے ایسا کون سا سانئسی و تعلیمی انقلاب آیا ہے کہ کرغزستان جیسے خطے میں جہاں کسی کو بھی انگریزی نہیں آتی اور نہ سمجھتے ہیں وہاں اچانک ایسا کون سا انقلاب آیا کون سے ماہر تعلیم پیدا ہو گئے جو اتنی زیادہ تعداد میں میڈیکل یونیورسٹیاں بن گئی ہوسٹل بن گئے اور میڈیکل کالونیاں تعمیر ہو گئی ہزاروں کی تعداد میں پاکستان انڈیا بنگلہ دیش اور دوسرے بہت سے ممالک جن میں مصر اور ترکی سرفہرست ہیں سے طلبہ و طلبات کرغزستان سے میڈیکل کی ڈگری لینے آتے ہیں۔
تو سچ یہ ہے کہ وہ صرف کاغذ کی ہی حد تک ڈگری ہوتی ہے اس کا کسی بھی قسم کی میڈیکل کی پڑھائی اور پریکٹس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جتنے اضافی پیسے اتنے اچھے گریڈز۔
ان لائن سب کچھ موجود ہے دنیا کا کون سا ملک ہے جس میں پورا سال میڈیکل کے داخلے جاری رہتے ہیں اور جہاں پر میڈیکل میں داخلے کے لیے صرف 12 سال کی تعلیم میں 50 فیصد نمبر اور منہ مانگی فیس اور بس۔
اور یہ کام بھی کوئی اور نہیں پاکستان انڈیا اور بنگلہ دیش کے لوگ کر رہے ہیں اور زیادہ تر وہاں پر یہ میڈیکل یونیورسٹیوں کا کاروبار بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ڈاکٹر ساز منڈیاں لگانے والے انویسٹر کا تعلق انہی ممالک سے ہے اور ان کے ایجنٹ ہر شہر قصے میں پھیلے ہوئے ہیں یہاں سے یہ سادہ لوگوں کو سنہرے مستقل کے خواب دکھا کر پوری زندگی کی جمع پونجی کے ساتھ ساتھ ان کی اولادیں بھی لے جاتے ہیں جو پانچ سال کے بعد واپسی پر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگوانے کے علاوہ ایڈز جیسی بیماریاں اور اخلاقی بگاڑ بھی آپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اور یہاں آکر انسانوں کو جانوروں کا درجہ بھی نہ دیتے ہوئے ان پر پریکٹس کرنا اور ان کی زندگیوں سے کھیلنا اپنا حق سمجھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھوانے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کیے ہوتے ہیں اور ساتھ میں اپ اپنا ضمیر اور اخلاقیات بھی بیچی ہوتی ہیں تو یہ ان کا پاکستانی عوام پر احسان ہوتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم لوگ ہم پاکستانی لوگ کب جاگیں گے کب سوچیں گے کب اپنی عقل استعمال کریں گے اور کب تک بے وقوف بنتے رہیں گے یا پھر اپنے بچے کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کب تک بے حسی اور ضمیر فروشی کا دھندا کرتے رہیں گے کہ میرے بچے کا مستقبل بن جائے باقی ہزاروں جانوں کا کیا؟
کیا ڈاکٹر بننا ہی مہذب پیشہ ہے اور کوئی تعلیم کوئی عہدہ کوئی پیشہ مہذب نہیں ۔
خدا کے لیے زندگی کے معیار کو سمجھے زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ کے لیے نہیں ۔ زندگی کو فطرت کے نظام کے ساتھ چلائیے نہیں تو سب ختم ہو جائے گا۔
اب بات یہ بھی سوچنے کی ہے کہ پاکستان پی ایم ڈی سی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے علم میں یہ سب معاملات کیسے نہیں ہوں گے یہاں پر سرٹیفکیٹ بھی تو یہی ادارے دیتے ہیں پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے حکمرانوں کو اس بارے میں کوئی علم نہ ہو کہ یہ چھوٹا سا خطہ کب اتنا ترقی یافتہ ہو گیا کہ ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹیاں بنا لی کب اور کیسے اور پھر ان کے نظام اور سہولیات کے بارے میں بھی نہ جانتے ہو ں یہ نہیں ہو سکتا یا پھر یہ جانتے نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کے لیے اہم نہیں ہوگا یا پھر شاید آنکھیں بند رکھنے میں ہی بہتری سمجھتے ہیں ۔
دو دن سے جب میں اس معاملے کو سمجھنے کے لیے معلومات اکٹھی کر رہی تھی اور نیٹ پر بھی تلاش جاری تھی بہت سی معلومات ملی اتنی کہ مزید دو دن میں سکتے میں رہی کہ ہم اپنے بچوں کو بھیجنے سے پہلے ان کی یونیورسٹیوں وہاں کی سہولیات وہاں کی نظام اور وہاں کے ماحول کے بارے میں کیوں جاننے کی کوشش نہیں کرتے کیوں نہیں سوچتے کیوں نہیں سمجھتے پھر شاید ہم اتنے مردہ ہو چکے ہیں کہ ہمیں کچھ فرق ہی نہیں پڑتا یہ ساری عادتیں پرانی ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی پختہ بھی ہو گئی ہیں کہ ہماری خون کے ساتھ ساتھ جینز کا بھی حصہ بن گئی ہے ۔
تو اب ہم میڈیکل یونیورسٹیوں سے ڈاکٹر بن کر نکلیں یا پھر ڈاکٹر ساز منڈیوں سے ڈگری لے کر ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اگر آپ اس موضوع پر مزید کسی معلومات اور تفصیل چاہتے ہیں تو آپ نیٹ کے علاوہ ڈاکٹر بادشاہ منیر نیازی کا اس معاملے پر تفصیل اور سیر حاصل مضمون بھی پڑھ سکتے ہیں جو انہوں نے خود کرغزستان کا دورہ کر کے وہاں دیکھا اور پھر انہوں نے اس کے لیے کیا کیا کوشیش کی اور نتیجہ وہی دھات کے تین پات۔
آپ لوگ اگر بے ضمیر نہ ہوئے تو انکھیں کھولنے اور سوچوں کو بدلنے کے لیے کافی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.