“لنگڑۓ “آم کو خوش آمدید

37

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
ریاست بہاولپور کی شدید گرمی جہاں بے شمار انسانی مشکلات کا باعث بنتی ہے اورلوگ گرمی سے بلبلانے لگتے ہیں ۔ایسے میں جب گرمیوں کے موسم کے بارے میں سوچ کر ہی الجھن اور گھبراہٹ سی ہونے لگتی ہے وہیں اس شدید گرمی میں یہاں کے لوگوں کے لیے ایک خوشگوار خبر یہاں کے خوش ذائقہ آموں کی آمد ہوتی ہے جس کا یہاں کے لوگ پورے سال شدت اور بے صبری سے انتظار کرتے ہیں ۔یہاں کے آموں سے یہاں کی پوری ثقافت جڑی ہوئی ہے ۔جونہی یہ آم مارکیٹ میں آتے ہیں پورا علاقہ سبز و پیلے آموں سے بھر جاتا ہے ہر جانب آموں کی یہ دل موہ لینے والی خوشبو اور بہار پھیل جاتی ہے ۔اگر یہ کہا جاے ٔ تو غلط نہ ہوگا کہ آموں کو دیکھ کر لوگ گرمی کی مشکلات بھول جاتے ہیں ۔سخت گرمی کے باوجود ٹیوب ویل ،نہر کنارے ،سوئمنگ پول ،دریا وں پر بنے پکنک پوائنٹ پر میلے کا سماں ہوتا ہے ۔یہاں کی ثقافتی” ساونی ” یعنی دوستوں کے ہمراہ پکنک کا اہتمام تو تقریبا” لازمی ہو جاتا ہے ۔ساونی یا اس پکنک پر دور دور سے دوستوں کو بلایا جاتا ہے اور اس شدت کی گرمی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ٹھنڈے اور میٹھے آم اور دودھ کی کچی لسی سے تواضع کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی پپھر بھی لذیذ کھانوں کا اہتمام بھی اس ساونی یا پکنک کا لازمی جزو ہوتا ہے ۔تو دوسری جانب روائتی طور پر یہ آم دوستوں کو تحفے اور سوغات کے طورپر بھجوانا محبتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے ۔گو یہاں کے آموں کی بےشمار ایک سے بڑھ کر ایک خوش ذائقہ اقسام موجود ہیں جن میں سرولی ،انور رٹول ،لنگڑا ،ادسہری ور چونسہ سرفہرست ہیں جو ایک کے پیچھے ایک آنا شروع ہوتے ہیں ۔آموں کی ابتدا تو سندھڑی آم سے شروع ہو جاتی ہے لیکن علاقائی آم سرولی سب سے پہلے آتا ہے اس کے پیچھے پیچھے انور رٹول جسے آموں کا بادشاہ اور ذائقے کا شہنشاہ بھی کہا جاتا ہے اپنا رنگ جما لیتاہے اور لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا لیتا ہے ۔انور رٹول کے ساتھ ساتھ ہی یہاں کا ایک مقبول تریں آم “لنگڑا “اپنی انفرادیت کی وجہ سے بےحد پسند کیا جاتا ہے ۔یہ مختلف سائز کا ہوتا ہے اور اس کا چھلکا عموما” سبز اور چکنا اور پتلا ہوتا ہے جبکہ گودے کا رنگ سرخی مائل زرد ،ملائم اور شریں رس دار ہوتا ہے ۔اس انفرادیت ہے کہ اس میں ریشہ نہیں ہوتا اور یہ پک کر بھی سبز رنگت کا ہوتا ہےاور اپنی مخصوص خوشبو رکھتا ہے ۔اسکی گھٹلی چھوٹی اور گودا زیادہ ہوتا ہے ۔ یہ آم مارکیٹ میں آم کی آخری قسم چونسہ آم کی آمد تک اپنا سکہ جماے رکھتا ہے ۔ ذائقے میں دوسرے آموں سے منفرد لذت رکھنے والا یہ آم عام طور پر انور رٹول اور چونسے سے ذرا کم قیمت ہونے کی وجہ سے یہ غریبوں کا آم بھی کہلاتا ہے ۔لفظ” لنگڑا “آم سن کر بڑا عجیب سا لگتا ہے کہ بھلا پھل بھی کبھی لنگڑا ہو سکتا ہے ؟ اس آم کا نام لنگڑا کیوں پڑا ؟آم کی ٹانگیں نہیں ہوتیں تو یہ لنگڑا کیسے ہوا ؟
اس سے بہت سی روایات منسوب ہیں ۔کہتے ہیں اس آم کے درخت کے نیچے ایک لنگڑا فقیر بیٹھتا تھا جس کی دعا سے اس کے آموں کا ذائقہ منفرد ہو گیا اور اسے لنگڑا ٓم کہا جانے لگا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس درخت پر یہ آم لگا تھا اس باغ کا مالک لنگڑا تھا اس لیے اسے لنگڑے کا آم کہا گیا ۔کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ بہت پہلے جب آموں کی ورائٹی کم تھی تو یہ قلمی آم سب سے بڑا ہوتا تھا اس لیے اسے تگڑا آم کہا جاتا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ لنگڑا مشہور ہو گیا ۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس کا درخت دور سے دیکھنے میں لنگڑا لگتا تھا یہی وجہ اس کے نام سے جڑ گئی ۔بعض لوگ اس آم کی نسبت مشہور بادشاہ تیمور لنگ سے بھی جوڑتے ہیں ۔خیر اس کے نام کی وجہ کوئی بھی ہو لنگڑا آم ہمارے علاقے میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ چکا ہے ۔بقول ایک دوست عامر ایاز خان کے یہ لنگڑا ہے تو کیا ہوا مزیدار بھی تو ہے ۔برصغیر میں پیدا ہونے والی پندرہ سو سے زائد اقسام میں لنگڑا آم اپنی انفردیت کی بنا پر بے حد پسند کیا جاتا ہے ۔آموں کی آمد آمد ہے چند دنوں بعد ہر جانب آموں کے پیلے اور سبز رنگ بکھرنے لگیں گے ۔ یہ گرم ماحول ان کی مخصوص خوشبو سے ٹھنڈک کا احساس دلانے لگے گا اور اس قدر گرمی کے باوجود چہروں پر رونق کا سبب بن جاے ٔ گا۔آم پورے سال اچار ، مربے ،چٹنی ، جوس ،کھٹائی یا آموں کی شکل میں ہمارے گھروں کا حصہ رہتا ہے ۔عشق اور مشک کی طرح آم بھی چھپاۓ نہیں چھپتا ۔اسکی مخصوص خوشبو اسکی موجودگی کا پتہ دیتی ہے ۔یہاں تک کہ آم کھانے والے سے بھی اس کی خوشبو دیر تک آتی رہتی ہے ۔ایک سروے کے مطابق آم سب سے زیادہ چرایا جانے والا پھل شمار ہوتا ہے ۔
آم اور ادب کا بھی چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔مرزا غالب نے تو آم پر پوری مثنوی لکھ دی ہے اور جب یہ کہا کہ ” آم کا کون مرد میداں ہے ؟ تو مطلب یہ تھا کہ آم کا مقابلہ اور مقابل کوئی نہیں ہے ۔لنگڑا آم سے ایک بڑا دلچسپ واقعہ بھی منسوب ہے ۔الہ آباد سے اکبر الہ آبادی نے ڈاکٹر علامہ اقبال کو لنگڑے آموں کا ایک پارسل بھیجا ۔علامہ اقبال ؒ نےوصول پاکر پارسل کی رسید بھجی اور شکریہ بھی ادا کیا ۔اکبر الہ آبادی کو الہ آباد سے لاہور تک باحفاظت آم پہنچنے پر تعجب ہوا کیونکہ اس دور میں ایسے پارسلوں کا اتنا بڑا سفر اور وہ بھی بخریت ہونا معجزہ ہی تھا ۔اکبر الہ آبادی نے ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ کو خط کا جواب لکھا اور اپنے تعجب کا اظہار اس شعر سے کیا ۔
اثر یہ تیرے انفاس مسیحائی کا ہے اکبر
الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا
کہتے ہیں کہ آم کا آبائی وطن جنوبی ایشیا یا برصغیر پاک وہند ہی تھا اس لیے اسے پاکستان اور بھارت کا قومی پھل بھی مانا جاتا ہے ۔آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے جو صرف خوش ذائقہ ہی نہیں صحت بخش بخش بھی ہوتا ہے۔اور بچے بوڑھے اور جوان ہر ایک کا پسندیدہ ہوتا ہے ۔گرمیوں میں یہ آم خدا کی بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں ۔بقول مرزا غالب آم کی خصوصیت یہی ہے کہ” وہ میٹھے ہوں اور بہت ہوں “۔لیکن یہ اور بھی ذائقہ دار بن جاتا ہے جب اسے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ تپتی دھوپ ،حبس ،گھٹن ،کے باوجود کسی سا ۓ دار درخت تلے بیٹھ کسی نہر کنارےیا سوئمنگ پول پر کھایا جاے ٔ ۔ایسے میں اگر بارش ہو جاے تو سونے پر سہاگہ ہو جا تا ہے
ہو رہا ہے ذکر پیہم آم کا
آرہا ہے پھر سے موسم آم کا
نظم لکھ کر اس کے استقبال کی
کر رہا ہوں خیر مقدم آم کا
ریاست بہاولپور میں نواب آف بہاولپور نے بےتحاشا آموں کے باغات لگواے تھے اور ریاست میں ایک پورا محکمہ باغات قائم تھا جس کا دفتر ہمارے ڈیرہ نواب صاحب والے گھر کے سامنے تھا ۔آخری دور میں بھی جنرل مارڈن اس کے انچارج تھے جن کے ماتحت ہزاروں مالی اور بیلدار ہوا کرتے تھے جو نہ صرف باغوں کی حفاظت کرتے تھے بلکہ نئے باغات لگانے کی ذمہداری بھی ان کی ہوتی تھی ۔نواب امیر آف بہاولپور کے ان بےشمار باغات میں لنگڑے ٔ آم کی کثرت ہوا کرتی تھی ۔نواب صاحب کے اس شوق کے اثرات وہاں کے لوگوں پر بھی پڑے اور بہت سے لوگوں نے چھوٹے چھوٹے بےشما ر باغیچے لگا ہوے ٔ تھے جو آج بھی موجود ہیں ۔جہاں قلمی آموں کی کاشت کی جاتی اور خصوصی طور پر ڈیرہ نواب صاحب میں لنگڑے آم کی بہت اعلیٰ ورائٹی ملتی تھی ۔میرے دوست سعید چشتی کے باغیچے میں لنگڑے آم کے کئی درخت تھے جن میں بڑے وزن اور سائز کے آم لگتے تھے ۔ یہاں کے ہر گھر میں ایک دو آم کے درخت ضرور ہوتے تھے ۔ گو وقت کے ساتھ ساتھ باغوں کے کٹنے اور مزید باغات کے نہ لگنے سے ماحولیات کے ساتھ ساتھ آموں کی پیداوار بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔لیکن اس کے باوجود گرمی کی اس شدت میں خوشگواری کا احساس یہاں کے لنگڑے آموں سے جڑا ہوا ہے ۔ابھی بھی پرانی روایات کو دہرایا جاتا ہے ۔ساونی اور مینگو پارٹی کا اہتمام ہر ہر سطح پر دیکھنے میں آتا ہے ۔جبکہ اس بلند سطح کی مہنگائی ہونے کے باوجود یہ روائتی تحفہ دور دور تک مخصوص وعزیزوں اور دوستوں کو بھجوایا جاتا ہے جس کے لیے ڈائیو بس سروس اور فیصل مورز نے خصوصی انتظامات بھی کئے ہیں لیکن ان کے چارجز اسقدر زیادہ ہیں کہ بسا اوقات وہ آم کی قیمت سے بھی بڑھ جاتے ہیں ۔دعایہ کریں کہ اس مرتبہ آموں کی یہ فصل آندھیوں اور بارشوں سے محفوظ رہے اور یہ آم عام ہو جاے ٔ ۔
آم تیری یہ خوش نصیبی ہے
ورنہ لنگڑوں پہ کون مرتا ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.