کرپشن

18

ہر وہ کام جو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے. کسی دوسرے شخص کو ناجائز فائدہ پہنچانے کی غرض سے کیا جائے. وہ کرپشن کے زمرہ میں آتا ہے.
ملک پاکستان کرپشن کی لعنت سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے. یہاں ہر کوئی کرپشن کرنا اپنا فرض تصور کرتا ہے. سرکاری ملازمین، تاجر، صنعت کار، سیاست دان، ججز اور عوام سبھی اس دھندے میں ملوث ہیں.
ہمارے ہاں جو جتنی بڑی کرپشن کرتا ہے. اسے اتنے ہی بڑے منصب سے نوازا جاتا ہے. ہمارے نوجوان دنیا کی بڑی بڑی جامعات سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اعلی ترین حکومتی عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں.
پاکستان میں بھی ذہین ترین طالب علم سی ایس ایس، پی سی ایس کا امتحان پاس کرکے اعلی ترین انتظامی عہدوں پر تعنیات ہوتے ہیں. سیاست دان بھی عوامی خدمت کا نعرہ لگا کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں. کاروباری حضرات بھی چہرے پر سنت رسول رکھ کر اپنے اپنے کاروبار پر بیٹھتے ہیں.
ان سب کا بنیادی مقصد ناجائز ذرائع سے اپنی آمدن میں اضافہ کرنا ہوتا ہے. والدین بھی اپنے بچوں کو تعلیم دیتے وقت بتاتے ہیں. کہ فلاں سرکاری ادارے میں ملازمت کرنی ہے.
وہاں بڑا پیسہ ہے. ہمارے ملک میں کامیابی کا دارومدار ہی دولت ہے. جس کے پاس زیادہ دولت ہوتی ہے. وہ کامیاب انسان تصور کیا جاتا ہے. اسی دولت کو حاصل کرنے کے لیے لوگوں میں مقابلہ چل رہا ہے.
کوئی نہیں دیکھتا کہ پیسہ جائز یا ناجائز ذرائع سے حاصل ہو رہا ہے. سب اس کو حاصل کرنے کی لگن میں مصروف عمل ہیں. کرپشن کا ناسور ہماری رگوں میں اس قدر سرایت کر چکا ہے.
کہ اس کہ بغیر ہمارا زندہ رہنا ناگوار ہو چکا ہے. تعلیم یافتہ طبقہ سرکاری ملازمت کی جستجو میں پاگل ہوا پھرتا ہے. جب ملازمت مل جاتی ہے. تو پھر شکوہ کرتا ہے. کہ قلیل تنخواہ میں ہمارا گزارا مشکل ہے.
اس لیے ناجائز ذرائع سے کچھ آمدن کماتے ہیں . ہر سرکاری ادارہ کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے. عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ کوئی بھی ایسا نہیں. جو اس سے مستفید نہ ہوتا ہو. ستم ظرفی یہ بات تو یہ ہے.
کہ ملک پاکستان میں کرپشن کی روک تھام کے لیے ذیلی ادارے بنائے جاتے ہیں. جن میں نیب، ایف آئی اے، انٹی کرپشن شامل ہیں. تمام سرکاری اداروں سے چن چن کر کرپٹ ملازمین کو ان اداروں میں تعنیات کیا جاتا ہے.
کیونکہ صاحب اقتدار کو پتہ ہوتا ہے. کہ ان لوگوں کا کرپشن میں کوئی ثانی نہیں. یہ اداروں میں بیٹھ کر خود بھی کمائے گے. اور ہمارے لیے بھی دولت کے انبار لگائے گے.
عوام جب سرکاری ملازمین کی رشوت ستانی کی شکایت لیکر ان اداروں میں جاتے ہیں. تو وہاں پر انہیں اداروں کے ملازمین تعنیات ہوتے ہیں. جو مختلف حیلے بہانوں سے اپنے سرکاری کرپٹ بھائیوں کی مدد کرتے ہیں.
اور ان سے معاوضہ وصول کرتے ہیں. کہ ہم نے تمھاری جان بخشا دی ہے.
فیصل آباد انٹی کرپشن کے ادارے میں ڈائریکٹر موصوف کو ڈیپوٹیشن پر کسی ادارے سے لا کر تعنیات کیا گیا ہے. ان کے پاس بذات خود ایک پولیس سب انسپکٹر کے خلاف تیس ہزار کی رشوت کا کیس لیکر جانے کا اتفاق ہوا.
تو صاحب بہادر کہتے کہ تیس ہزار کی کیا رشوت ہوتی ہے.
اب میں کیا اتنی رقم کے لیے سب انسپکٹر کے خلاف قانونی کاروائی کرو. اس نے کرپشن کی درخواست ردی کی ٹوکری کی نظر کر دی . یہ ایک مثال ہے.
کرپشن کی روک تھام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اداروں کے سربراہان خود کرپٹ ترین سرکاری ملازم ہوتے ہیں. انہوں نے عوام کو انصاف کیا دینا ہوتا ہے.
ہماری عدلیہ بھی کریش میں ڈوبی ہوئی ہے. عدالتی عملہ آواز لگانے والے ملازم سے لیکر جج کے سٹینو گرافر تک ہر کوئی چائے پانی مانگ رہا ہوتا ہے. یہ رشوت بھی اپنا حق سمجھ کر لیتے ہیں. یہ جانے بنا کہ سائل کس قدر پریشان حال ہوگا. انہیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں. انہیں تو ملزم اور مدعی دونوں پارٹیوں سے بس پیسے چاہیے ہوتے ہیں. ملزم جیل میں ہوتا ہے. وہ تاریخ پر عدالت آتا ہے. اس کی آیندہ پیشی کی تاریخ ڈالنے کے نام پر رشوت وصول کی جاتی ہے. کسی کی ضمانت منظور ہونے پر مٹھائی کے نام پر رشوت لی جاتی ہے. یہ سب مکروہ دھندہ جج بہادر کی آنکھوں کے سامنے جاری و ساری ہوتا ہے. ایسے میں مظلوم کو کیا خاک انصاف ملے گا. ملک پاکستان میں سیاست دان وہ واحد طبقہ ہے. جن پر ہر کوئی انگلی اٹھاتا ہے. ان کی کرپشن سب کو نظر آتی ہے. مگر سرکاری ملازمین کی کرپشن کی داستانوں پر سب چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں. کرپشن کسی بھی جگہ ہو. یہ اچھی چیز نہیں. اس کی روک تھام کا بہترین طریقہ یہ ہے. کہ تمام سرکاری اداروں کو پرائیویٹ کر دیا جائے. جس میں ہر شخص کو اس کی قابلیت کے مطابق تنخواہ دی جائے. ناجائز پیسوں کی فرمائش کرنے والے کو فی الفور نوکری سے فارغ کر دیا جائے. نیب، ایف آئی اے، انٹی کرپشن میں تعیناتی کے لیے لوگ بھاری رشوت دیتے ہیں. کیونکہ انہیں معلوم ہے. کہ ان اداروں میں دل کھول کر کرپشن کا موقع ملے گا. لوگوں کی لوٹی ہوئی دولت کو یہ اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں. کرپشن کا ناسور ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے.لوگ راتوں رات امیر ہونے کے چکر میں صحیح اور غلط کی تمیز بھول چکے ہیں. انہیں صرف اور صرف دولت چاہیے. وہ کسی بھی ذرائع سے حاصل ہو رہی ہو . اس سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں. ہمارے ملک میں کرپشن کی روک تھام کے لیے قوانین تو بنتے ہیں. مگر ان ہر عمل درآمد نہیں ہوتا. کیونکہ جہنوں نے عمل درآمد کروانا ہوتا ہے. وہ خود کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں. ملک پاکستان میں کرپشن کرنے والے کو بہادر شمار کیا جاتا ہے. کیونکہ یہ ناجائز ذرائع سے کمائی گئ دولت کو لوگوں پر شاہانہ خرچ کرتا ہے. اور لوگ اس کی دولت اور شاہ خرچی کے گیت گاتے ہیں. دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن کی ترقی کی ہم مثالیں دیتے ہیں. ان کی ترقی کا راز محنت اور ایمانداری ہے. کرپشن کو ان کے ہاں گناہ کیبرہ تصور کیا جاتا ہے. ہمارے پڑوسی ملک چین میں کرپشن کی سزا پھانسی ہے. اسی بدولت یہ ممالک ترقی کی بلندیوں پر پہنچ پائے ہیں. کیونکہ ان کے ہاں کرپشن کو قانونی اور معاشرتی طور پر ناپسندیدہ فعل گردانہ جاتا ہے. جبکہ ہمارے ہاں کرپشن کرنے والے کو بہادر اور دولت مند کہا جاتا ہے. جس دن ہماری قوم نے کرہشن کے ناسور سے چھٹکارا حاصل کر لیا. اسی دن ہماری تقدیر بدل جائے گی. قوموں کی زندگی میں کئی موڑ آتے ہیں. جہاں پر وہ اپنا احتساب کرکے آگے بڑھتی ہیں . آئے ہم بھی عہد کرے. اور کرہشن کے ناسور کا اپنے ملک سے قلع قمع کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرے. اس اقدام کے لیے سخت سے سخت سزائیں تشکیل دینا ہوگی. کرپشن کے ہوتے ہوئے ہمارا ملک ترقی کی منزل کی جانب گامزن نہیں ہو سکتا. کرپٹ انسان کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے. ناکہ کہ اس کی حوصلہ افزائی. زندہ اقوام اپنے معاشرے میں چھپی ہوئے فرسودہ روایات کو خود سے جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہیں. ملک پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں. بس اس کے وسائل کو لٹنے سے بچانے کے لیے مناسب اقدامات کی ضرورت ہے.

اورنگزیب اعوان

20/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-13-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.