گندم سے کپاس تک ؟

36

تحریر ؛۔ جاوید ایازخان
گندم کے موجود بحران سے کسانوں کے ارمان اور خوشیاں ماند پڑ چکی ہیں ۔ان کہ پورے سال کی محنت اور امیدیں پر پانی پھر چکا ہے ۔ چیت کا مہینہ ابھی ابھی گزرا ہے اور بیساکھ کے رنگ فضا میں بکھرنے لگے ہیں لیکن یہ رنگ اس مرتبہ پھیکے پھیکے کیوں ہیں ؟کسان کے چہرے پر وہ رونق اور چمک دمک کیوں نظر نہیں آتی جو گندم کی پکی ہوئہ فصل اور فصل سے بھری بوریوں کو دیکھ کر آتی ہے ؟وجہ صرف یہ ہے کہ ان کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ان کی گندم کی فصل مناسب داموں بکے سکے گی ؟ گندم کی گرتی ہوئی قیمت ہر روز ان کی پریشانی میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے ۔حکومت کے مقرر کردہ نرخ سے بھی ایک ہزار روپے من کم قیمت ان کی خوشیوں اور خوابوں کو مسمار کر رہی ہے ان کی خواہشات بکھر رہی ہیں ۔بیساکھی اور میلوں میں رونق ناپید ہو چکی ہے ۔فصل آنے پر بازاروں میں ہونے والا رش نظر نہیں آتا ۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ ان کے پاس ایک نوجوان آیا جو پہلے بہت خوش مزاج اور زندہ دل نظر آتا تھا مگر آج تو وہ بہت افسردہ دکھائی دیا ۔پوچھنے پر کہنے لگا میری تو خوشیاں بھی گندم کی نظر ہو گئی ہیں ۔پوچھا بھائی وہ کیسے ؟تو کہنے لگا ابا جی نے وعدہ کیا تھا کہ گندم کی فصل کے پیسے آنے پر تمہاری شادی کردوں گا مگر گندم کی آمدنی سے تو اب منگنی تک ہونا مشکل نظر آتا ہے ۔جس پر انہوں نے کہا اداس نہ ہو ں بھائی ! چلو کوئی بات نہیں شادی کے لیے میں تمہاری کچھ مدد کر دوں گا ۔جس پر وہ ہنس پڑا اور جواب دیا جناب آپ میری مدد تو کردیں گے مگر لڑکی والوں کی مدد کوں کرۓ گا ؟ ان کی گندم تو ہمارے سے بھی کم قیمت پر فروخت ہوئی ہے ۔ بظاہر یہ ایک لطیفہ ہی لگتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس مرتبہ بےپناہ اخراجات کرکے گندم کی بمپر فصل کاشت کی گئی تھی اور زراعت سے وابستہ تمام لوگوں کی خوشیاں ،امیدیں اور خواہشات گندم کی نقد آور فصل کی آمدنی سےجڑی ہوئیں تھیں ۔جو گندم کی خریداری کے اعلانات اور نئی اور مناسب حکومتی قیمت خرید کے اعلانات سے دو چند ہو چکی تھی ۔ موجودہ بدترین مہنگائی سے اس فصل پر کسان کی کھاد ،بیج ،ادویات ۔ڈیزل ۔بجلی اور پیٹرول پر بے دریغ رقم خرچ ہوئی ہے ۔اس ریکارڈ اور تاریخی فصل کے حصول کے لیے انہیں تاریخی خرچ کا سامنا تھا ۔اس کے باوجود تمام تر مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوے ٔ ہمارے ملک کے کسانوں نے گندم کی ریکارڈ فصل ناصرف کاشت کی بلکہ گندم کی فی ایکڑ پیداوار بھی تاریخی سطح پر پہنچا دی ہے ۔گندم کی فصل پچھلے دو ماہ سے مارکیٹ اور گھروں میں پڑی ہے ۔آڑھتی ۔مڈل مین اور فلور ملز مالکان کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوے ٔ ان سے اونے پونے داموں خرید رہے ہیں ۔احتجاج اور مطالبے پر کسی بہتر حکومتی فیصلے آنے تک چھوٹا کاشتکار اپنی فصل بیچ چکا ہوگا کیونکہ اس نے زمین کی مستاجری یا ٹھیکہ دینا ہے ۔بےشمار لوگوں کا ادھار بھی چکا نا ہے ۔ گندم کی سرکاری خرید کا مقصد تو چھوٹے کاشتکار کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے کیونکہ وہ زیادہ دیر فصل رکھ نہیں سکتا ۔البتہ بڑء زمیندار ،جاگیر دار جو ذخیرہ کر سکتے ہیں ۔وہی آنے والے دنوں میں وہی ان حکومتی اقدامات سے مستفید ہوں گے ۔حکومت ایسی پالیسی بھی ترتیب دے سکتی ہے جس کے تحت تمام گندم مقررہ ریٹ پر خرید کر مختلف ممالک کر درآمد کر سکے ۔ہمارے پالیسی سازوں کی اامتحان یہی ہے کہ موجودہ گندم کو کیسے خرید کر کسانوں کو آئندہ زراعت کی ترقی اور پیداوار کی تسلسل برقرار رکھا جاسکتا ہے ۔زراعت کی ترقی کے لیے مڈل مین یا آڑھتی کا کردار کم سے کم کیا جاۓ ۔ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کو کنٹرول کیا جاۓ ۔یہ سب حکومتی سطح پر ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔ ملک کے ستر فیصد زراعت سے منسلک لوگوں اور کسان کی پریشانی کا حل تلاش کرنا حکومتی ذمہداری سمجھا جاتا ہے ۔
سوال یہ نہیں کہ گندم کی فصل کے مناسب ریٹ نہ ملنے سے صرف عام کسان اور کاشتکار کی مالی مشکلات بڑھ جائیں گیں بلکہ اس کا ایک درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے پاس اگلی فصل کپاس کی کاشت کے لیے کچھ نہیں بچا ہے ۔ کسان کی اگلی فصل کپاس ،گنا اور چاول ہو تی ہے ۔گندم کہ نسبت ان فصلوں پر اخراجات بھی کافی زیادہ آتے ہیں ۔گندم کے ہاتھوں مالی مشکلات کا شکار کسان یہ نئی فصلیں کیسے کاشت کر سکے گا ؟ جبکہ کھاد ،بیج اور زرعی ادویات کی آسمان سے چھوتی قیمتیں پریشان کن ہیں ۔بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ ہماری کپاس کی فصل گندم کے بحران سے شدید متاثر ہو گی اور مقررہ پیدوارہ ہدف کا حصول ممکن بنانا دشوار تریں مرحلہ ہو جاے ٔ گا ۔ہمارے علاقے میں ہمیشہ اچھی گندم کی آمدنی سے ہی اچھی کپاس کاشت کی جاسکتی ہے ۔یاد رہے کپاس ہمارے ملک کی سب سے نقد آو ر فصل شمار ہوتی ہے جو ہماری ملکی معیشت مضبوطی اور زرمبادلہ میں اضافے کے لیے ریڑ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے ۔پہلے ہی پورے بہاولپور ڈویژن میں گنے کی فصل نے رفتہ رفتہ کپاس کی جگہ لے لی ہے اور گنے کی بےشمار شوگر ملز نے علاقائی کپاس کو بے حد متاثر کیا ہے اور اس علاقے کی سب سے بڑی صنعت کاٹن جننگ زوال پذیر ہو چکی ہے بےشما ر کاٹن فیکٹریاں اور آئل ملز نہ صرف بند ہو چکی ہیں بلکہ ان کی جگہ پر رہائشی کالونیاں بن چکی ہیں ۔جو پہلے ہی ایک لمحہ فکریہ ہے ؟ اور اب رہی سہی کسر گندم کا موجودہ مالی بحران پورا کردے گا جس کی وجہ سے کپاس کی نقد آور فصل کی کاشت میں مزید کمی دیکھنے میں آسکتی ہے۔آئندہ کی اچھی فصلوں کا درومدار موجودہ گندم کی فصل کی خرید اری اور کسان کی مالی معاملات پر منحصر ہے ۔پنجاب جیسے زرعی علاقے میں گندم کی فصل سے مایوسی کوئی اچھی علامت نہیں ہے ۔اگر ہم واقعی ملک میں ایک بڑا زرعی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو ہمیں آئندہ فصلوں کپاس ،چاول اور گنے کی پیداوار پر بھی توجہ دینی ہوگی جس کے لیے موجودہ گندم کی فصل کی حکومتی نرخوں پر خریداری بے حد ضروری ہے ۔دوسری جانب کسان کو آئندہ فصلوں کی ترغیب دینے کے لیے فوری بلاسود قرضوں کا جراء اور زرعی ضروریات کی اشیاء کی سستے داموں خریداری کو ممکن بنانا ہو گا تاکہ کھاد ،زرعی ادویات ۔ڈیزل ،پیٹرول ،بجلی اور اچھے بیج کی فراہمی بروقت اور کم قیمت پر میسر آسکے ۔زراعت کی ترقی اور بہتری کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے اعلان کے مطابق مقررہ ریٹ پر خریداری ممکن بناے ٔ اور کسانوں کو اعتماد میں لے کہ آئندہ بھی ہر فصل کو مناب داموں خرید ا جاۓ گا ۔زراعت کی ترقی دراصل ہماری معیشت کی ریڑ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے ۔یہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمارے ملک کو اس معاشی بحران سے نکال سکتا ہے ۔اس لیے اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ابھی بھی وقت ہے ہمارے بروقت فیصلے ہماری زراعت میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.