سانحہ 9 مئی کی سیاہی

13

تحریر: فیصل زمان چشتی

نو مئی کا دن ایک سیاہ دن ہے جس دن ہماری قوم کو تقسیم کرنے اور آپس کے تعلقات میں خلیج حائل کرنے کی مذموم سازش کی گئی۔ قومی یکجہتی اور یگانگت کی فضا کو آلودہ اور مکدر کرنے کی کوشش کی گئی۔ نفرتوں کی ان شاخوں کو ہلایا گیا جن سے صرف زہر ٹپکتا ہے۔ سیکیورٹی اداروں/ فورسز اور عوام کے درمیان جو اعتماد اور یقین کا رشتہ پچھلے پچھتر برسوں سے مضبوطی سے قائم تھا اس کو توڑنے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ ملک کے دفاع کو کمزور کرنے کے لئے سیکیورٹی اداروں کو تنہا کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور اس تمام کارروائی میں ہماری سب سے بڑی طاقت اور سٹرینتھ یعنی نوجوان نسل کو استعمال کیا گیا ان کے مستقبل سے کھیلا گیا ان کے بوڑھے والدین کے بڑھاپے کو خراب کیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی سانحات وقوع پذیر ہونے جن میں ملک و قوم کو بڑے بڑے نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ ان پر انکوائریاں بھی ہویئں کمیٹیاں بھی بنیں مگر کبھی بھی فیکٹس اور حقائق عوام کے سامنے پیش نہ کئے گئے نہ ہی ذمہ داران کا تعین کیا گیا نہ ہی کسی فرد یا گروہ کو سزا ہوئی اصل حقائق فائلوں میں ہی دبا دبے گئے۔ عوام کے سامنے ہمیشہ ملزمان کے نام تو آتے رہے مگر مجرمان کا تعین نہ کیا جا سکا اور یہ ایک قومی المیہ ہے۔ مگر سانحہ 9 مئی جس کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے کی تفصیلات جاری کرنا اور سازش کا کھوج لگانا انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ ان واقعات میں ملوث تمام افراد کی بلاتخصیص تحقیقات کی جائیں مجرمان کا تعین کیا جائے اور ان کو افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کے لیے ایسے حالات کا قلع قمع ہو سکے کیونکہ یہ انتہائی حساس نوعیت کے معاملات ہیں جن کا تعلق قومی سلامتی کے امور سے ہے جن پر کسی قسم کا کمپرومائز یا سمجھوتہ اس ملک کے لئے زہر قاتل ہے۔ بیلاگ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات سے ہی اصل معاملات سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ ہم اس وقت اپنی بقا اور سالمیت کی جنگ لڑرہے ہیں کوئی کمی ، کوتاہی یا بے ایمانی ناقابل برداشت ہے۔ ہمیں ہروقت اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بدامنی اور اندرونی خلفشار نے ہمیں گھیرا ہوا ہے۔ اگر اس وقت بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور مجرموں کو کٹہرے میں نہ لا سکے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور ایسے سانحات اور واقعات کے خدانخواستہ دوبارہ ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

اگر غیر جانبداری اور سنجیدگی سے ایسے واقعات کی روک تھام نہ کی گئی تو یہ مزید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ صاحبان اقتدار کو تمام فیصلے انتہائی سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں عجلت سے پرہیز کیا جائے تاکہ معاشرے اور ملک و قوم کا مزید نقصان نہ ہو۔
9 مئی 2023 کو دنیا نے وہ دیکھا جس کا تصور بھی محال ہے۔ جی ایچ کیو راولپنڈی جو ہماری قومی سلامتی کا ضامن ہے وہ مقامات جہاں دشمن کو بھی آنکھ اٹھانے کی جرات نہیں اپنے ہی چڑھ دوڑے اور جگ ہنسائی کا پورا موقع دیا۔ شہداء ، غازیوں کی یادگاروں کا تقدس پامال کیا گیا اور شہداء کی تصاویر کو آگ لگائی گئی۔ کور کمانڈر ہاوس لاہور جسے جناح ہاؤس کہتے ہیں اس کو آگ لگائی گئی۔ چن چن کر ایک ایک چیز کو نشانہ بنایا گیا بلوائیوں نے قائداعظم کی نوادرات، تصاویر، پیانو، رائٹنگ ٹیبل اور تلوار تک جلا ڈالی۔ گاڑیاں جلائی گئیں۔ نایاب پرندوں اور جانوروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ دیواریں اور فرش اکھاڑ دیئے گئے۔ جی ایچ کیو پر حملہ پاکستان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اس کے ساتھ پشاور میں ریڈیو پاکستان کو جلایا گیا۔ قلعہ بالا حصار پر دھاوا بولا گیا۔ چکدرہ میں ایف سی کے قلعے پر حملہ کیا گیا ، آگ لگائی گئی اور قدیم یادگاری توپ اکھاڑ کر پھینک دی گئی۔ میانوالی میں ایئر بیس پر حملہ کیا گیا اور جہاز کے ماڈل کو آگ لگائی گئی۔ سرگودھا اور مردان کے شہداء کی یادگاروں کی توہین کی گئی اور شہداء کی تصاویر کی بے حرمتی کی گئی۔ اتنا سب کچھ کیا گیا اور یہ یاد رکھیے گا کہ قوم کے لئے ریاست بہت اہمیت کی حامل اور متبرک ہوتی ہے۔ پاکستان کے احترام اور تقدس کی اہمیت نے ہی ابھی تک ہمارا شیرازہ بکھرنے سے بچایا ہوا ہے۔ یہ سب کام عام آدمی نہیں کررہا تھا یہ بلوائی تھے اور ہر چیز ختم کردینا چاہتے تھے۔ یہ سب کچھ کسی ایک شہر میں نہیں کیا گیا بلکہ یہ فضا ہر شہر میں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دن پورا ملک حیران و پریشان تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے اور کس کے ایما پر کیا جارہا ہے۔ یہ بیانیہ بڑا وائرل کیا گیا کہ ٹریپ کیا گیا سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کوئی اپنے ہی گھر پر حملہ آور ہو سکتا ہے ، اپنے ہی گھر کو آگ لگا سکتا ہے ، توڑ پھوڑ کرکے سازو سامان کو آگ لگا سکتا ہے ۔ اس بات کا جواب ٹھنڈے دل سے دیجئے اور سوچیے کہ 9 مئی والے دن کیا کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ ملک میں انارکی پھیلانے کی مذموم سازش کی گئی اور پورے ملک میں ایسے ادارے پر حملہ کیا گیا جو ہماری قومی سلامتی کا ضامن ہے اور پوری قوم کا محافظ ہے۔ ان حملوں سے کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان حملوں سے دشمن کے ناپاک ارادوں کو تقویت ملی ان کے پروپیگنڈے تیز ہوئے۔ دشمن کے ٹی وی چینلز آگ اگلتے رہے۔ دشمن کا آلہء کار بننے والے اور ان کے مقاصد پورے کرنے والے کون لوگ ہوتے ہیں ؟ اور ان کی سزا کیا ہوتی ہے ؟ یہ ذرا سوچیے !
ان شہداء کے گھر والوں پر کیا بیتی ہوگی جن کے باپ، بیٹے، بھائی اور خاوند پاکستان پر قربان ہوئے۔ ان غازیوں کے دلوں پر کیا گزری ہوگی جو اب مستقل معذور زندگی گزار رہے ہیں۔ قوم کی ہر سانس ان کی قربانیوں کی مقروض ہے۔ جو انسان اپنی جان نچھاور کردے یا قربانی کے لیے اپنے آپ کو پیش کردے اس کی نیت پر شک کرنا پرلے درجے کی بے غیرتی اور سفاکیت ہے ۔ یہ فوج بھی ہماری ہے یہ ملک بھی ہمارا ہے۔ دانشمندی اور قومی سلامتی کا تقاضہ ہے کہ ہمیں خود اپنے گریبان کو چاک نہیں کرنا چاہیے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر کو آگ نہیں لگانی چاہیے ۔
خدارا پاکستان کے موجودہ حالات کا ادراک کیجئے زمینی حقائق بڑے تلخ ہیں شخصیات کی بجائے اداروں کو مضبوط کیجئے تاکہ کسی کے آنے سے یا چلے جانے سے ملک کو چیلنج درپیش نہ ہو۔ ہمیں آنے والی نسلوں کے کے لیے کچھ اچھا کرنا ہے ہمیں ان کو ایسی روشنی اور تہذیبی قوت دینی ہے جس پر وہ فخر کر سکیں اور ہمیں بھی اطمینان رہے کہ ہم نے اپنا فرض نبھادیا ہے۔
یہ آرزو ہے کہ فیصل یوں معتبر ٹھہریں
کہ جب چلیں تو زمانے میں سر اٹھا کے چلیں
پاکستان زندہ باد۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.