ملکی تاریخ کا دلخراش واقعہ

16

تحریر:محمود خان

ایک خاص گروہ کی جانب سے قوم کی تنصیبات پر حملہ کیا گیا۔ اس حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، یہ حملہ قوم اور اس کی خودمختاری پر حملہ تھا۔ پاکستان کی عوام اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی، جس طرح ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات، قربانیوں کو بھلا کر ان کی ساکھ کو بزدلانہ کارروائی میں نشانہ بنایا گیا، پاکستانی قوم ان کی خدمات اور قربانیوں کی قدر کرتے ہوئے اور کسی کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ قوم و وطن کے جانثاروں کو نشانہ بنائیں،ایسے تمام مجروموں کے خلاف فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرنی چاہیے اور ایسے لوگوں کا احتساب کرنا چاہیے۔ ایسا حملہ صرف ایک ادارے پر نہیں بلکہ جمہوریت اور عوام پر حملہ تھا۔ لہذا کسی بھی سیاسی اختلافات کو تشدد اور خونریزی سے طے نہیں کرنا چاہیے۔اگر یہ ملک ہے تو سب ہیں، لہذ اتمام سیاسی جماعتیں یہ عزم کریں کہ ملک کی سلامتی، ترقی استحکام کیلئے سب کو پرامن اور جمہوری طریقے سے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ملک کی سلامتی اور ترقی کیلئے سب کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے اور سب کو ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے جہاں وطن عزیز کا ہر شہری خوشحال ہو۔ لہذا دنیا کو اور وطن عزیز پاکستان کے مخالفین کو یہ باور کروانا ہے کہ نو مئی جیسے واقعات کے خلاف پوری قوم اپنے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے اور پہلے سے زیادہ مضبوط اور متحد ہو کر یکجا ہے۔تاہم 9 مئی کا واقعہ ملک کی تاریخ میں بڑا دلخراش واقعہ تھا۔ 9 مئی کو ملک کے امن و امان کو جس انداز میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی وہ ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں ملتی اور یہ واقعہ ملک کے خلاف ایک بڑی سازش تھی۔ ملکی اداروں پر حملے سے ظاہر ہوا کہ جنہوں نے اس مذموم سازش میں حصہ لیا وہ ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں تھے۔ ایسے عمل سے پاکستان کے مخالفین کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی قوم آج بھی متحد ہے اور ملک کے خلاف ایسی سازشوں کو ہمیشہ ناکام بناتی رہے گی۔ ملکی اداروں کی وجہ سے آج وطن عزیز قائم و دائم ہے اور ان کے ہونے سے ملک مستحکم ہے۔
دوسری جانب اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف کاکہنا تھا کہ نومئی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیںاس دن کو کو عوام اور فوج میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی،پاک فوج، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ افواج پاکستان کی اولین ترجیح ملک میں امن و امان قائم کرنا ہے اور اس کے لیے دہشت گردوں، ان کے سر پرستوں اور سہولت کاروں کی سرکوبی کے لیے ہر ممکن حد تک جائیں گے۔ نومئی فوج نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام کا مقدمہ ہے، نومئی کرنے اور کروانے والوں کو آئین کے مطابق سزا دینی پڑے گی، انہیں سزا نہ دی گئی تو ملک میں کسی کی جان مال آبرو محفوظ نہیں رہے گی، سزا و جزا کے نظام پر یقین برقرار رکھنے کے لئے انہیں سزا دیں اور جلد از جلد دیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اس پر بنتا ہے جس کے بارے میں کوئی ابہام ہو، یہاں تو سب کچھ واضح ہے، سچ کھل کر سامنے آگیا تو فالس فلیگ آپریشن کا پروپیگنڈا کیا گیا، ہم 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن کے لیے تیار ہیں لیکن پھر پوری تہہ تک جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سب نے اپنی آنکھوں سے اس واقعے کو ہوتے دیکھا، کس طرح لوگوں کی ذہن سازی کی گئی، فوج اور اس کی قیادت کے خلاف لوگوں کے ذہن بنائے گئے، سیاسی رہنما¶ں نے چن چن کر بتایاکہ یہاں حملہ کرو، عوام اورفوج میں نفرت پیدا کرنے والوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے تو نظام انصاف پر سوال اٹھتے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن اس بات کا بھی احاطہ کرے کہ2014 کے دھرنے کے مقاصد کیا تھے، پارلیمنٹ پی ٹی وی حملے کا جائزہ لے، کس طرح لوگوں کو ریاست کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت دی گئی کہ سول نافرمانی کریں، بجلی بلز جلائیں، کے پی سے اسلام آباد پر دھاوا بولا گیا، آئی ایم ایف کو خط لکھے گئے، پاکستان کو پیسے نہ دینے کے لیے لابنگ کی گئی، کہاں سے فنڈنگ ہو رہی تھی، سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف کون نفرت پھیلا رہا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہا کہ سیاسی انتشاری ٹولے سے کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی، اس کے لئے صرف ایک ہی رستہ ہے کہ صدق دل سے معافی مانگے، نفرت کی سیاست چھوڑنے کا وعدہ کرے، تعمیری سیاست میں حصہ لے۔
اس میں دہرائے نہیں کہ9مئی پاکستان کی سیاست میں ایک سیاہ دن ہے،اس دن عوام کو جلاﺅ گھیراﺅ کی ترغیب دے کر انتشار پھیلایا گیا، 9 مئی کو عوام کو ورغلایا گیا کہ سڑکوں پر آئیں اور املاک کو نقصان پہنچائیں، بسوں کو نذر آتش کیا گیا، ایمبولنسز کو آگ لگائی گئی، یہاں تک کہ جناح ہاﺅس جیسی جگہ کو بھی نہیں بخشا گیا۔ 9 مئی کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مظاہرہ کیا گیا،یہ امر حقیقی ہے کہ جو بھی لیڈر جلاﺅ گھیراﺅ کی ترغیب دے یا جو بھی جماعت اقتدار کی ہوس میں نوجوانوں کو گمراہ کرے اس کی بات نہیں سننی چاہیے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.