ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات

34

تحریر: اصغر علی کھوکھر

ایک اور یوم مزدور گزر گیا ـپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بہت کچھ لکھا ،پڑھا اور سنا سنایا گیا ۔بہت سی تقریباًت ہوئیں، جن میں دھواں دھار دار تقریریں ہوئیںمگر مزدور کی تقدیر بدلی نظر آئی، نہ بدلنے کی امید بندھی۔ اَشیائے خورد و نوش سمیت استعمال کی دیگر اشیاء کی طرح ساتویں آسمان پر محو پرواز قیمتوں کی طرح قبر اور کفن کی قیمتیں بھی مرنے والوں کے ورثا کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ تربیت یافتہ اور زیر تربیت ارباب اختیار میں سے شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ کہ لاہور سمیت وطن عزیز کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے قبرستانوں میں کسی مرنے والے کو دفنانے پر کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے اور جب تک اس کے ورثاء کے گھر افسوس کے لیے آنے والے دوست احباب اور عزیز و اقارب گھروں کو لوٹ نہ جائیں، وہ کن کن مالی مشکلات کا شکار رہتاہے۔اس کا کسی کو اندازہ نہیں چنانچہ متعدد جگہوں سے اطلاعات کے مطابق ا ب خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے خاندانوں نے تو اپنے ہاں خالق حقیقی سے جا ملنے والوں کی موت کی خبر کا اعلان کرانا بھی چھوڑ دیا ہے کہ اگر عزیز و اقارب کو اس سانحہ کا پتہ چلا اور وہ اللہ کو پیارے ہونے والے کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے آگئے توان کو کھانا کہاں سے کھلایا جائے گا نیز رسم قل پر بھنے چنے اور میٹھی پھلڑیاں کہاں سے آئیں گی؟یہ حقیقت ہے کہ ان ناگفتہ بہ حالات ہیںاہل محلہ اور مخیر حضرات مردے دفنانے میں تعاون نہ کریں تو مالی مشکلات کے شکار لوگ شائدان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہ ہو سکیں مگر حیرت ہے کہ ان حالات میں بھی اقتدار اور اختیارات کے مزے لوٹنے والوں کو شرم محسوس نہیں ہوتی کہ خلق خدا کس نوعیت کے مسائل و مشکلات سے دوچار ہے کہ کسی محنت کش کے بچوں کو پڑھنے کے لیے کتابیں اور کاپیاں دستیاب نہیں اور کسی کو بیمار بیوی بچوں کے لئے ادویات میسر نہیں، کوئی تن پر ڈھنگ کے کپڑے کوترس رہا ہے اور کوئی سر چھپانے کے لیے چھت سے محروم سے محروم ہے۔یہ کیسا طرزِ حکمرانی ہے کہ ہر طرف حکمرانوں کی بے حسی اور غریب عوام کی بے بسی روز افزوں ہے۔ مزدور کی مالی حالت سدھارنے کے لیے حکمرانوں کے قول و فعل میں واضح تضادہے اور یہی تضاد معاشرے میں قدم قدم پر فسادات کا باعث بن رہا ہے۔کہیں گاہک قیمتوں کو پرَ لگنے پر دکان دار سے بحت کرتا سنائی دیتا ہے۔ کہیں دوران سفر مسافر ٹرانسپورٹ مافیا۔ سے اُلجھ رہے ہوتے ہیں اور کہیں حالات کے ستائے نوجوان منفی رجحانات کا شکار ہو رہے ہیں سو اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ معاشرے میں بڑھتے جرائم اور اخلاقی بے راہ روی کم آمدنی اور بے قابو اخراجات کا نتیجہ ہے کہ اس پر احتجاج ریکارڈ کرانا بھی اب جرم قرار پا چکا ہے ،جس کا لازمی نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ حالات کے جبر کے ستائے غریب عوام موت کو گلے لگانے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔بقول شاعر


یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہے محسن
کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہو جائے


اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ وہ مزدور موت کو گلے لگا رہا ہے، جس کا وجود قدم قدم پر وقت کے حکمرانوں کی زیست کا سامان مہیا کرتا ہے۔ ارباب ِاقتدار کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کسان زمین کاسینہ نہ چیرے،مزدور سڑکیں نہ بنائیں،صنعتی شعبے کا پہیہ نہ گھمائیں ،تو قدرت کے کارخانے میں رونق کیسے ہو گی کہ ترقی کے لیے محض سرمایہ دارکاسرمایہ ہی کافی نہیں ہوتا،اس کے لیے مزدور کی محنت بھی ضروری ہے ۔تو پھر کیا یہ سماجی انصاف کے منافی نہیں کہ سرمایہ کار تو خوشحال زندگی بسر کرے اور مزدور مسائل کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلا جائے ،وہ مزدور جسے اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست قرار دیا ہے۔ارباب اختیار کو چاہیے کہ اس اہم سماجی مسئلے پر فوری توجہ دیں تاکہ وطن عزیز جلد از جلد ایک اسلامی فلاحی ریاست بن سکے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.