آنکھ سے آسمان جاتا ھے۔۔۔۔

107

روبرو۔۔۔محمد نوید مرزا

اردو شاعری خاص طور پر غزل کو نیا رنگ اور مزاج عطا کرنے میں ھمارے شاعروں کی بے شمار کاوشیں منظر عام پر آ چکی ھیں۔جدیدیت کے نام پر ھونے والے تجربوں نے غزل کی خوبصورتی کو مسخ بھی کیا ھے۔لیکن وہ شاعر قابل ستائش ھیں،جنھوں نے جدید غزل کہتے ھوئے روایت کی پاسداری کی ھے۔انہی شاعروں میں ایک معتبر نام جناب طارق نعیم کا بھی ھے۔جن کی نعت کے ایک شعر نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ھے۔۔۔آپ بھی پڑھیں

میں اپنے آپ کو اونچا سمجھنے لگتا ھوں
اگر مدینے سے اک بھی کھجور آ جائے

سرکار دو عالم صل علی علیہہ وسلم سے نسبت اور عقیدت و احترام کا یہ ایک الگ انداز ھے۔اسی طرح کی منفرد اور قابل غور شاعری ان کی کلیات میں بھی شامل ھے۔انھوں نے کلیات کا نام اپنے اس شعر سے اخذ کیا ھے۔۔۔

آنکھ سے آسمان جاتا ھے
میں توجہ ہٹا نہیں سکتا

اس کلیات میں ان کے مختلف ادوار میں شائع شدہ تین مجموعے ،وقت کا انتظار کون کرے،دئیے میں جلتی رات اور رکی ھوئی شاموں کی راہداریاں شامل ھیں۔طارق نعیم اپنی شاعری میں ماضی،حال اور مستقبل تینوں زمانوں سے جڑے ھوئے ھیں۔ان کے پاس موضوعات کی فراوانی ھے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ حرف کو اس کی اصل جگہ پر برتنے کے ھنر سے بھی آشنا ھیں۔ان کی تخلیقی ھنر مندی،مشاھدے،تجربے اور طویل ریاضت نے انھیں دنیائے ادب میں ایک مقام عطا کر رکھا ھے ۔بقول سید مجتبی حیدر شیرازی،،اس کے ھاں لفظ سے اور نہ ھی خیال سے زور زبردستی ھے بلکہ وہ مضمون کو لفظوں میں اٹھنا بیٹھنا سکھاتا دکھائی دیتا ھے۔شاید اس نے کسی لفظ گیر فقیر سے ایک ریاضت کے بعد لفظوں سے بزم آرائی کا ھنر سیکھ رکھا ھے،،
ان الفاظ کی صداقت کو سمجھنے کے لئے آئیے اب طارق نعیم کے کچھ شعر دیکھتے ھیں۔۔۔۔

دل کے دریا میں کچھ اس طرح روانی آجائے
کربلا ھونٹ پہ ھو آنکھ میں پانی آ جائے

کاش ایسا ھو مدینے وہ بلائیں جب بھی
ان کے روضے پہ مجھے بات بنانی آ جائے

میں کائنات سے پہلے جہاں جہاں گیا تھا
مرے علاؤہ کوئی اور بھی وھاں گیا تھا

پھر اس سے قبل کہ بار دگر بنایا جائے
یہ آئنہ ھے اسے دیکھ کر بنایا جائے

میں نے قرطاس پہ لا کر انھیں پابند کیا
لفظ اظہار میں کب حاشیہ پوش آئے تھے

جشن موقوف کر دیا جائے
شہر میں ایک حادثہ ھوا ھے

اک فاصلہ رکھ ھے ھمیں اور دنوں تک
یہ وقت کہیں ملنے ملانے کا نہیں ھے

یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں
مواصلات کا پہلا نظام آنکھیں تھیں

یہ اور اس کے علاؤہ بھی کئی شعر کلیات کا حصہ ھیں۔اپنے طویل دیباچے میں انجم خلیق نے انھیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا ھے ،ایک اقتباس دیکھیں۔۔۔۔
۔۔۔۔فلک پیمائی کے علاؤہ حیرت وہ دوسرا عنصر ،کیفیت یا سوچ ھے ،جس کے ریشم سے طارق نعیم اپنے شعری جمالیات کے تارو پود کی بخیہ گری کرتا ھے۔اس کی حیرت شاعری اسے مایوس نہیں کرتی،سوال اٹھاتی ھے۔وہ قاری کو حیرت زدگی کے طلسم میں الجھاتا تو ھے مگر جوں جوں قاری پر معنی کی پرتیں کھلتی ھیں تو اس کا ذوق شعر ،شاعر کی انفرادیت فکر اور علوئے معنی سے سرشار ھو جاتا ھے،،
طارق نعیم خود بھی حیرت میں گم ھیں اور ھمیں بھی اس حیرانی کا مشاھدہ کرنے کی دعوت دے رھے ھیں۔وہ خود اپنی شاعری کے بارے میں لکھتے ھیں۔۔۔۔میری شاعری میرے لئے صحرا بھی ھے حیرت بھی اور گمان بھی ھے۔اس لئے بھی کہ میرے شعری وجدان کا سلسلہ اس رات سے جڑا ھوا ھے جو سرشام ھی ان دئیوں کی گنتی شروع کر دیتی ھے جنھیں اس نے اپنی ذات کے اندھیرے میں صبح ھونے سے پہلے شکار کرنا ھوتا ھے ،،
ناقدین کی کمی کے اس دور میں خود کو دریافت کرنے کی یہ عمدہ کاوش ھے۔طارق نعیم کو بہت بہت مبارک باد۔۔۔ویل ڈن

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.