انتظامی ٹریبونلز اور خصوصی عدالتیں
تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
وفاق کے زیر کنٹرول انتظامی ٹریبونلز اور خصوصی عدالتیں آئین پاکستان کے آرٹیکل 212 اور پارلیمنٹ سے منظور شدہ خصوصی قوانین کے تحت قائم کی جاتی ہیں۔ جبکہ صوبائی انتظامی ٹریبونلز اور خصوصی عدالتیں صوبائی اسمبلیوں سے منظور شدہ قوانین کے تحت قائم کی جاتی ہیں۔ ان ٹریبونلز اور خصوصی عدالتوں کے قیام کا مقصد سرکاری و نجی اداروں ، تنظیموں، اور ریاستی اداروں، محکموں میں کام کرنے والے افراد اور اداروں کے درمیان پائی جانے والی شکایات کے تصفیے کرنا ہے ۔ ان عدالتوں کی نگرانی وفاقی سطح پر مختلف وزارتیں اور صوبائی سطح پر مختلف محکموں کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بنائے گئے خصوصی قوانین کی عملداری کے دوران کسی فرد یا اداروں کی جانب سے عدم پیروی کی بناء پر مسائل، جرائم کی روک تھام اور سزائوں کے اجراء کی بابت خصوصی عدالتیں و انتظامی ٹریبونلز قائم کئے گئے ہیں۔ ملک بھر میں وفاقی حکومت کے انتظامی کنٹرول میں 145 خصوصی عدالتیں اور انتظامی ٹربیونلز قائم کئے گئے ہیں جن میں احتساب عدالتیں، اینٹی ڈمپنگ اپیلیٹ ٹربیونل، انسداد دہشتگردی عدالتیں، اپیلیٹ ٹریبونل ان لینڈ ریونیو، اپیلیٹ ٹریبونل سیلز ٹیکس، بینکنگ کورٹس، کمرشل کورٹس، مسابقتی اپیل ٹریبونل، کسٹم اپیلٹ ٹربیونلز، ڈرگ کورٹس، ماحولیاتی پروٹیکشن ٹربیونل، فیڈرل سروس ٹربیونل، فارن ایکسچینج ریگولیشن اپیلٹ بورڈ، انشورنس اپیلیٹ ٹریبونل، انٹلیکچوئل پراپرٹی ٹریبونل، میڈیکل ٹریبونل، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری، اتھارٹی اپیلٹ بورڈ، نیشنل انڈسٹریل ریلیشنزکمیشن، الیکٹرانک کرائم کی روک تھام تحقیقاتی ایجنسی ٹریبونل، خصوصی عدالت (وسطی)، خصوصی عدالت (نشہ آور اشیاء کے کنٹرول)، خصوصی عدالت (کسٹمز، ٹیکسیشن اور انسداد اسمگلنگ)، خصوصی عدالت (بینکوں میں جرائم) شامل ہیں۔ اسی طرح صوبائی حکومتوں کے انتظامی کنٹرول میں 179 خصوصی عدالتیں اور انتظامی ٹربیونلز قائم کئے گئے ہیں جن میں انسداد بدعنوانی کی عدالتیں، اپیلٹ ٹربیونل لوکل کونسل سندھ، انسداد دہشت گردی کی عدالتیں، انسداد تجاوزات ٹربیونلز، چائلڈ پروٹیکشن کورٹ، کنزیومر کورٹس، اپیلٹ ٹربیونل سندھ ریونیواتھارٹی، منشیات کی عدالتیں، ماحولیاتی تحفظ ٹریبونل، لیبر اپیلیٹ ٹربیونلز، لیبر کورٹس، خصوصی عدالت تجاوزات کا خاتمہ، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ٹربیونل، پنجاب ریونیو اتھارٹی بورڈ، پنجاب لائیو اسٹاک ٹریبونل، سروس ٹربیونلز شامل ہیں۔ یوں ملک بھر میں وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام انتظامی ٹربیونلز اور خصوصی عدالتوں کی کل تعداد 324 ہے۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان عدلیہ اور انتظامی ٹربیونلز اور خصوصی عدالتوں سے متعلق ڈیٹا اکٹھا اور ترتیب دے کر ایک اہم کردار ادا کرتا ہے تاکہ انصاف کے انتظام کو بہتر بنایا جا سکے۔ لاءاینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان نےجنوری 2023 تا دسمبر 2023 انتظامی ٹربیونلز اور خصوصی عدالتوں کی سالانہ کارکردگی پر مبنی رپورٹ شائع کردی ہے۔ بارہ صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ مختلف انتظامی ٹربیونلز اور خصوصی عدالتوں کی کارکردگی کا گہرائی سے تجزیہ فراہم کرتی ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2023 کے دوران انتظامی ٹریبونلز اور خصوصی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی کل تعداد میں تقریباً 2 فیصد کا معمولی اضافہ ہوا ہے اور سال 2023کے آغاز پر زیر التوا مقدمات کی تعداد ایک لاکھ 60ہزار 697تھی جبکہ سال کے اختتام پر یہ تعداد ایک لاکھ 63ہزار 211ہوگئی۔ سال بھر میں نئے اندارج شدہ مقدمات کی تعداد ایک لاکھ 35ہزار 824تک پہنچی جبکہ اسی عرصہ میں ایک لاکھ 37ہزار 316مقدمات کے فیصلے جاری کئے گئے۔ سال کے ا ختتام پر وفاق کے زیر انتظام خصوصی عدالتوں اور ٹریبونلز میں زیر التوا مقدمات کی تعداد ایک لاکھ 28ہزار111تک پہنچی جبکہ صوبائی خصوصی عدالتوں اور ٹریبونلز میں یہ تعداد 35ہزار 100رہی۔ زیر التوا مقدمات میں وفاقی سطح پر سب سے زیادہ مقدمات اپیلیٹ ٹریبونل ان لینڈ ریونیو کے ہیں جنکی تعداد 64ہزار 444ہے جبکہ دوسرے نمبر پر بینکنگ کورٹس کے مقدمات جنکی تعداد 30ہزار 407 ہے جبکہ تیسرے نمبر پر وفاقی سروس ٹریبونل کے مقدمات جنکی تعداد 10ہزار 917ہے۔ صوبائی سطح پر زیر التواء مقدمات کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ زیرالتوا مقدمات لیبر کورٹس کے ہیں جنکی تعداد 9ہزار 346ہے جبکہ دوسرے نمبر پرپنجاب/خیبر پختونخواہ سروس ٹریبونلز میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 9ہزار 220ہے۔ بظاہر ان خصوصی عدالتوں اور ٹریبونلز میں ملک بھر میں زیر التوا مقدمات کی تعداد ایک لاکھ 63ہزار 211 ہے مگر نجانے یہ مقدمات کتنے عرصہ پرانے ہیں۔ سائلین انصاف کے حصول کے لئے دہائیوں تک کورٹ کچہری میں ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔سائلین کو اپنے ساتھ ہونے والی حق تلفی کے برخلاف انصاف کب ملے گا، یہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ ایک تسلیم شدہ قانونی اصول ہے کہ انصاف میں تاخیر سے مراد انصاف سے انکار کرنا ہے۔جسکا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی متاثرہ فریق کو قانونی دادرسی بروقت نہیں مل رہی ہےتو اسکا واضح مطلب یہی ہے کہ سائل کے ساتھ انصاف نہیں کیا جارہا۔ اپنی گذشتہ تحاریر میں ملک بھر میں22لاکھ سے زائد زیر التواء دیوانی و فوجداری مقدمات کی بابت عرض کیا تھا کہ سالہا سال سے زیر التواء مقدمات کی وجوہات میں ایک سب سے بڑی وجہ عدالتوں/ججز کی کم تعداد کا ہونا ہے ۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے عمومی عدالتوں اور ججز کی کی تعداد میں اضافہ وقت کی اشد ضرورت ہے اسی طرح انتظامی ٹریبونلز و خصوصی عدالتوں اور ججز کی تعداد میں فی الفور اضافہ بھی اشد ضروری ہے۔ کیونکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 37(d)کے تحت ریاست پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سستے اور تیز ترین انصاف کو یقینی بنائے۔