بِنت حوا پر مظالم کب تک؟

592

تحریر : خالد غورغشتی

سوشل میڈیا، الیکڑونکس میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر آئے روز ہم پڑھتے، سُنتے اور دیکھتے رہتے ہیں کہ کبھی پانچ تو کبھی سات سال کی بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرکے بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ ہمارے خطے میں تنہا عورت کہیں بھی محفوظ نہیں۔ گزشتہ دنوں آپ نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہوگا کہ ایک بھائی کیسے باپ اور گھر والوں کے سامنے اپنی ہی بائیس سالہ سگی بہن کو تکیہ رکھ کر سانسیں بند کر کے قتل کر رہا ہے اور باپ سمیت سب گھر والے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ بعض سوشل میڈیا چینلز پر یہ باتیں بھی زیر گردش ہیں کہ بھائی اور باپ دونوں مل کر اپنے ہی گھر کی عصمت کو لوٹتے رہیے ہیں۔ جب اس نے گھر کے دیگر افراد تک یہ بات پہنچائی تو اس کی مدد کی بجائے سب نے مل کر اس کی سانسیں ہی بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

سانسیں بند کرنے سے بات یاد آئی ہمارے ہاں آپ جتنے بھی دلائل دیں، لوگوں کو سمجھائیں، مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوں گے اور اپنے بچوں کی شادیاں اس لیے نہ کریں گے کہ کہیں غریب اور شریف گھرانے میں دینے سے بچیاں بھوک سے نہ مرجائیں، حالاں کہ وہ خود بھی ایسی ہی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے آج نکاح مہنگا اور زنا سستا ہے۔ جب زنا سستا ہوجائے تو جگہ جگہ حرام رشتوں کی صورت میں جو رشتے سامنے آتے ہیں انھیں ہلاک کرنے کےلیے کبھی کچرا کنڈی، کبھی نہر، کبھی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر تو کبھی پارکوں و جنگلوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ آج لاکھوں نَنّھی مُنی جانیں حرام رشتوں کی صورت میں پیدا ہونے کی وجہ سے ضائع کردی جاتی ہیں لیکن ہمارے بے رحم سماج کو ذرا برابر ان پہ رحم نہیں آتا۔ اے میرے بھائیوں اور بہنوں کب تک حرام اولادیں پیدا کرکے ضائع کرتے رہو گے؟ آؤ نکاح کی سنت کو عام کرو، زنا کی گندگی و بدبو سے نجات حاصل کرو۔

نسواں کے حقوق پر جب بھی بات کی جائے ہمارے مذہبی طبقے کے لوگ اکثر آگ بگولا ہوکر ہتک آمیز جملے کسنا شروع کردیتے ہیں۔ حالاں کہ مسلک بچاؤ، مولویت محفوظ بناؤ کے منصوبے کے تحت جلسے جلوسوں میں ہر طبقے کے لوگ جگہ جگہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ نہ جانے کب عورت بچاؤ، نکاح کو پھیلاؤ تحریک ہمیں بھی جیتے جی دیکھنے کو ملے گی۔ ہمارے خطے میں کروڑوں بچیاں شادی کے جائز شرعی حقوق سے اس لیے محروم رہ جاتی ہیں کہ ان کے والدین کے پاس کھانے کو دانے نہیں ہوتے وہ لاکھوں روپے کا جہیز کہاں سے بچیوں کو دیں۔ اکثر ہماری بیٹیاں کروڑوں روپے کے بنے عالیشان مدارس و مساجد ، کوٹھیاں و محلات میں بسنے والوں کو دیکھ دیکھ کر دل ہی دل نام نہاد اسلامی سماج کو بد دعائیں دیتیں کنواری مر جاتی ہیں۔ ان کے عمر بھر کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا ؟ یہاں عورت بدکار ہوجائے تو سب معززین دوڑے دوڑے اس کے پاس شب باشی کےلیے چلے آتے ہیں۔ افسوس کہ آج تک عورت کی شرافت کو رشتوں کی مجبوری سے آگے کچھ نہ سمجھا گیا۔

جہیز اور گداگری کے خاتمے کےلیے فوری قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ان پہ پابندی ضروری ہوچکی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں چار کروڑ کے قریب بھکاری بھیک مانگ کر زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں۔ یعنی 25 کروڑ کی کل آبادی کا تقریباً چوتھا حصہ عادی گداگر بن چکا ہے۔ ایسے ہی کروڑوں جوان بچیاں جہیز نہ ہونے کے باعث بروقت شادیاں نہ ہونے کی وجہ حرام کاریوں میں مبتلا ہیں۔

ہماری منافقت کی آخری حدیں دیکھنی ہو تو بیٹے کی پسند کے لیے والدین کا سارا جہاں چھان مارتا ہوا دیکھ لو۔ لیکن جیسے ہی بیٹی کی پسند کی باری آئی سب کو ایسے سانپ سونگ جاتا ہے؛ جیسے اسلام میں اسے پسند کی شادی کا حق ہی نہیں. یہ کھلا تضاد کب تک؟ یہی وہ وجوہات ہیں جو نوجوان نسل کو حرام کاری کی سرشت میں مبتلا کرکے تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔

ہمارے مخلوط نظامِ تعلیم میں آج کل ایسے جنسی واقعات رونما ہوتے آرہے ہیں کہ بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں لڑکیاں اور لڑکے بغیر نکاح کے جنسی تعلقات بنانے میں مصروف ہیں۔ مگر یہ ناجائز تعلقات کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں لگتی۔ اکثر تعلیمی اداروں میں لڑکیاں والدین کی عزت پامال کر کے زندگی داؤ پر لگا دیتی ہیں اور بعد میں جب ان کی غیر اخلاقی و شرعی حرکات کا پنڈورا باکس کھلتا ہے تو صرف ایک راستہ ہی بچتا ہے اور وہ ہے خودکشی۔

خدارا احتیاط کیجیے، اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کر کے اللّٰہ کریم کے بتائے ہوئے، اس راستے کا انتخاب کیجیے۔ جو انبیاء کرام اور صالحین کا راستہ ہے۔ یقیناً اسی میں ہماری بہتری اور بقا ہے۔ ورنہ اس حال کا انتظار کریں، جو ہم سے پہلی قوموں کا ہوا تھا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.