آؤ ذرا سوچیں تو

61

مل بیٹھنے سے ہی خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے اور اس تبادلے کے عمل سے گزر کر ہی انسان نئی نئی دیگر باتوں اور چیزوں سے آگاہ ہوتا ہے اور متعارف بھی ہوتا ہے۔ اس کو مختلف چیزیں دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے اور وہ بڑے بڑے حقائق و واقعات سے آگاہ بھی ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں پروفیسرڈاکٹر خواجہ القمہ سابق وائس چانسلر بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور پروفیسر ڈاکٹر یاسر احمد خان چیئرمین منہاج یونیورسٹی سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر القمہ آجکل منہاج القرآن یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وہ معروف سیاستدان خواجہ خیرالدین کے فرزند ارجمند، نواب سلیم اللہ خان خالق انڈیا مسلم لیگ کے پوتے اور خواجہ ناظم الدین سابق گورنر جنرل اور سابق وزیراعظم پاکستان کے بھتیجے ہیں۔ اتنا بڑا خاندانی پس منظر ہونے کے علاوہ ان کا ایک بہت بڑا علمی قد کاٹھ ہے۔ انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے انٹر نیشنل ریلیشن میں ماسٹر کیا اور ان کی پی ایچ ڈی بیرون ملک سے ہے۔ ان کی گفتگو میں تحقیق کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ خیالات میں وسعت اور حالات حاضرہ پر ان کی گہری نظر ہے اور ویسے وہ دھیمے مزاج کے ایک نفیس اور سادہ لوح انسان ہیں۔ دوران گفتگو انہوں نے فرمایا ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ سے منقطع ہو گئے ہیں۔ کتنی بڑی بات ہے۔ “اگر ایسا نہ ہوتا تو کیسا ہوتا” اس بات پر ہماری گہری نظر ہوتی اور ہم ماضی کو حال کے ساتھ جوڑ کر اپنا مستقبل بہتر کر سکتے تھے۔ ذرا غور کریں۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کو اتنا بڑا نقصان کیوں کرہوا۔ قرآن و احادیث کے ہوتے ہوئے خلافت ملوکیت میں کیسے بدل گئی۔ کربلا کے لق ودق صحرا میں حسین علیہ السلام کا حرمت بیعت کا مقدمہ لڑنا کیسا رہا۔ مسلمان عرب سے سپین پہنچے اور پھر یورپ میں سوچ نے ایک نئی کروٹ لی اور نشاہ ثانیہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ مدارس اور یورپ کی علمی و تحقیقی درسگاہوں میں کیا بنیادی فرق تھا۔ مغل بادشاہوں جلال الدین اکبر اور اورنگ زیب عالمگیر کی سوچ اور منصوبہ سازی بلکہ طریق حکمرانی میں کیا چیز مختلف تھی اور دونوں کے ادوار نے ہندوستان کے حالات وواقعات کوکیسے متاثر کیا۔ کولمبس نے امریکہ کیوں اور کیسے فتح کیا اور پھر امریکہ واحد سپر پاور کیسے بن گیا۔ سردجنگ اور پھر افغان جنگ نے کیوں کر سوویت یونین کے حصے بخرے کردیئے۔ جنگ آزادی، کانگریس کا قیام، تقسیم بنگال، مسلم لیگ کا معرض وجود میں آنا، یونینسٹ پارٹی کا کردار، قائد اعظم کا سیاسی افق پر ایک متحرک سیاست دان کے طور پر سامنےآنا، ان سارے حالات میں انگریز کا رویہ، سوچ اور کردار اور پھر ہندوستان کا تقسیم ہو جانا۔ پاکستان کا دنیا کے نقشے پر ایک ریاست کے طور پر ابھرنا، ابتدائی مسائل کا سامنا کرنا اور ان سے نپٹنا، ملک کا جمہوریت اور مارشل لا کے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے پھر دو حصوں میں تقسیم ہو جانا اور بالآخر معاشی و سیاسی اور معاشرتی عدم استحکام کا شکار ہو جانا۔ عوام کا راہنماؤں کو دیکھنا، راہنماؤں کا عوام کو دیکھنا اور عوام اور راہنماؤں دونوں کا مل کر اداروں کی طرف دیکھنا۔ طرف داری، ناہمواری اور مزید خواری ہی خواری۔ یقییننا ہم تاریخ سے منقطع ہو گئے ہیں اور اپنی بقا کے لئے ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں
ڈاکٹر مذکور نے مجھے ایک کتاب، کلوزنگ آف دی مسلم مائنڈ پڑھنے کا بھی مشورہ دیا۔ بلاشبہ ہمارے اذہان نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اس کی وجہ بھی شاید تاریخ سے ہماری دوری ہے۔ ایک روایت ہے کہ نبی آخر الزمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کا والی مقرر فرماتے ہوئے ان سے دریافت کیا کہ وہ فیصلے کیسے کریں گے۔ انہوں نے عرض کی قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بدلتے حالات کے تحت ہوسکتا ہے کہ آپ کو کتاب مذکور میں بلاواسطہ اس مسئلے کاحل نہ ملے تو انہوں نے عرض کی یارسول اللہ آپ کی زندگی سے استفادہ کروں گا جس پر آپ ص نے پھر ارشاد فرمایا یہ بھی امکان ہے کہ آپ کو اس مسئلے کا حل میری زندگی سے بھی نہ ملے۔ جس پر انہوں نے عرض کی کہ پھر میں سوچ بچار کروں گا۔ اس جواب پر آپ بڑے خوش ہوئے۔ سوچ بچار کرنے کا تو قرآن مجید نے بھی جا بجا حکم دیا ہے۔ افسوس آج ہم نے سوچ بچار کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تقلید کا دور ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہر چیز کے کئی پہلو ہوتے ہیں اسی طرح تقلید کا مثبت پہلو بھی ہے لیکن ہم فرقوں میں بٹ گئے ہیں اور اوپر سے شخصیت پرستی نے ہماری سوچ کی راہیں مکمل طور پر مسدود کردی ہیں۔ اب ہم نے قرآن و احادیث کو ایک طرف رکھ دیا ہے اور ایک دوسرے کے بارے میں شکر رنجی اور بدظنی بلکہ تکفیر کے فتوے اور گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنا لوہا منوانے کا خبط۔ خبط کے نتیجے میں چیزیں ضبط ہو جاتی ہیں۔ علم و ہنر، تحقیق و جستجو اور سوچ بچار ٹھپ اور پھر غیروں نے ہماری منجی بھی ٹھوک دی ہے اور ہماری کھنب بھی ٹھپ دی ہے۔ اور ہمارے پاس دوش دینے کے علاوہ کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ تاہم ہم جوش سے کام لے رہے ہیں. رونا دھونا معاملات کو مزید پیچیدہ کرتا ہے اور رونے دھونے سے ہر طرف مایوسی اور غیریقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اور پوری قوم دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں قیادت کی صلاحیتوں کا امتحان ہوتا ہے۔ اصول راہنمائی کا تقاضہ ہے کہ سب سے پہلے اپنی قوم کی منزل کا تعین کیا جائے اور پھر ایک پروگرام کے تحت آگے کو بڑھا جائے۔ لیکن اس سارے کام کے لئے گہرے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ لہذا سب سے پہلے لوگوں میں سوچ بچار کے بارے میں گہرا شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ اپنے دماغ کی کھڑکیاں کھولیں اور اپنے ارد گرد کے ماحول پر گہری نظر رکھیں۔ اپنے بارے میں سوچیں اور دوسروں کے بارے میں فکر مند ہوں۔ مزید یہ کہ اپنی باری کا انتظار کریں۔ وقت سے پہلے دوڑنے والوں کو واپس آکر دوبارہ دوڑنا پڑتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ دوڑ کے مواقع سب کے لئے یکساں ہوں اور فاول پلے کرنے والا خود بخود دوڑ سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہ ساری باتیں سوچنا بھی دوڑ میں حصہ لینے والوں کے لئے ضروری ہے۔ وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا اور بالآخر ہاتھ اور جیبیں جھاڑنا پڑتی ہیں نہیں تو زندگی کے آخری موڑ پر تو زبردستی ہاتھ اور جیبیں خالی کروا لی جاتی ہیں۔ فی الحال خزانہ خالی ہے اور ہم سب کو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور حصہ بقدر جثہ کی بنیاد پر حصہ ڈالنا ہو گا۔ یہ کام سب کو کرنا ہو گا اور پھر غلے کی حفاظت کرنا بھی ہم سب کی یکساں ذمہ داری ہے۔ آمدن اور اخراجات میں تناسب برقرار رکھنے کے لئے بھی سوچ بچار کی ضرورت ہے اور اس سے بھی زیادہ یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم تاریخ سے منقطع کیسے ہو گئے اور ہم نے سوچنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ آو ذرا سوچیں تو

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.