الوداع ڈاکٹر امجد پرویز ،آپ دلوں میں زندہ رہیں گے

43

تین مارچ کو مجھے ضروری کام کے لیے سروسز ہسپتال کی ایمرجنسی جانا پڑا ۔
واپسی پر میںڈاکٹر امجد پرویز کے گھر کے قریب سے گزرا تو دل میں آیا کہ ان سے مل لوں 
مگر ذہن میں آیا کہ وہ بیمار ہیں کیسے باہر آئیں گے اسی بات کو لے کر میں اپنی راہ کی طرف بڑھا اور جب 2گھنٹے بعد گھر پہنچا تو وٹس پر سلیم بزمی کی جانب سے آئے
پیغام نے مجھے ہلا کر رکھ دیا جس میں ڈاکٹر امجد پرویز کے انتقال کی خبر تھی میں نے سلیم بزمی کو فون کیا تو انھوں نے کہا کہ یہ پیغام اب سے کچھ دیر قبل ان کو موصول ہوا ہے
اور میں نے سب سے پہلے آپ ہی کو بھیجا ہے کیونکہ آپ کا ان سے بہت تعلق ہے اس خبر کی سچائی جانیے تو میں نے بتایا کہ 2گھنٹے قبل ان کے گھر کے باہر سے گزرا تھا
مگر کوئی ایسی بات دکھائی نہ دی جس پرمیں وہاں رک جاتا برحال میں نے ڈاکٹر امجد پرویز کے بیٹے تیمور امجد کو فون کیا تو انھوں نے اپنے والد کے انتقال کی خبر کو درست قرار دیا
میں نے کہا ان کے تو گھٹنوں پر چوٹ لگی تھی تو اب کیا بات ہوئی تو تیمور بولے ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور آج دوپہرانھوں نے آخری سانس لی ان کا جنازہ کل بعد از نماز ظہر جامعہ مسجد شادمان میں ادا کیا جائے گا ۔
تیمور امجد کی بات سن کر میں افسردہ ہوگیا اور ڈاکٹر امجد پرویز سے بیتی یادیں میرے ذہن میں ایک فلم کی طرح گھومنی شروع ہوگئیں ۔
دوسرے دن میں نماز جنازہ کے لیے جامعہ مسجد پہنچا تو مسجد کے صحن میں ڈاکٹر امجد پرویز کا آخری دیدار کیا اور نماز جنازہ ادا کرکے ان کو آخری آرام گاہ کی طرف روانہ کردیا۔
ڈاکٹر امجد پرویز سے میری پہلی ملاقات کہاں ہوئی
یہ مجھے نہیں معلوم مگر میری اور ان کی کچھ باتیں مشتر ک تھیں جیسے انھوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنا سفر بچپن ہی سے بچوں کے پروگرام ہونہار سے کیا جبکہ میں نے بھی اپنے سفر کا آغاز بچپن ہی میں بچوں کے پروگرام روشن دنیا سے کیا
اس کے علاوہ ڈاکٹر امجد پرویز اندرون شاہ عالمی گیٹ میں پیدا ہوئے اور میری پیدائش بیرون شاہ عالمی گیٹ گروارجن نگر میں ہوئی اور سب سے بڑی بات وہ استاد گلوکار اور میوزیکالوجسٹ جبکہ مجھے شعبہ موسیقی سے حد سے ذیادہ لگاؤ ہے۔
ڈاکٹر امجد پرویز سے میری ملاقاتوں کا آغاز پاکستان ٹیلی ویژن سے ہوا
ان دنوں ہم بچوں کے پروگرام میں شرکت کے لیے وہاں جاتے تھے اور
ڈاکٹر امجد پرو یز ان دنوں اپنے گیت ریکارڈ کرایا کرتے تھے اور کبھی ہمارے پروگرام میں بھی شرکت کرتے تھے
اس کے بعد ریڈیو کے شعبہ موسیقی یعنی سی پی یو میں ان سے ملاقاتیں ہونا شروع ہوئیں
جو آخر تک جاری رہیں مگر ڈاکٹر امجد پرویز 2017کے بعدمکمل میرے رابطے میں آئے
جب مجھے ان کے پروگرام ہمارے موسیقار کا پروڈیوسر بنایا گیا وہ ہر جمعرات کو
پروگرام کے لیے تشریف لاتے اور میں کیونکہ ان دنوں ڈیوٹی آفیسر کے فرائض بھی ادا کررہا ہوتا تھا
تو ان سے گفتگو ہوتی اور موسیقی کے لیجنڈز پر بات ہوتی کبھی یہ بھی ہوجاتا کہ
میں ڈیوٹی روم سے اٹھ کر چائے پینے کے لیے کنٹرول روم چلا جاتا اور کلاسیکی موسیقی کے پروگرام
آہنگ خسروی کے لیے جس پروگرام کو لسٹ میں نشر ہونے کے لیے لگا کر جاتا تو
اس کی جگہ ڈاکٹر امجد پرویز کا پروگرام چلنا شروع ہوجاتا
تو ہم سب کو پتہ چل جاتا کہ ڈاکٹر امجد پرویز اسٹوڈیوز میں آگئے ہیں اور
لسٹ انھوں ے تبدیل کردی ہے۔2018میں ایک دن میں نے ڈاکٹر امجد پرویز سے پروگرام کے دوران بات کی کہ
اب ہمیں پروگرام ہمارے موسیقار ختم کردینا چاہیے کیونکہ آپ اس کو طویل عرصے سے کررہے ہیں 
اور یہ رپیٹ بھی ہورہا ہے اس کی جگہ نیا پروگرام فن اور فن کار کے نام سے شروع کرتے ہیں 
جس کا دائرہ کار بہت وسیع ہوگا تو انھوںنے پوچھا کیسے تو میں نے بتایا کہ
اب ہم اس میں گلوکار،میوزیشنز اور اداکاروں کو بھی شامل کریں گے وہ کہنے لگے کیسے تو میں نے کہا
ڈاکٹر صاحب اداکاروں پردلفریب موسیقی سے لبریز گیت پکچرائز ہوتے ہیں 
اس میں ہم یہ بھی بات کریں گے کہ یہ گیت اس گلوکار سے کیوں گوایا گیا
کیونکہ آپ لیونگ لیجنڈ ہیں اور لوگ آپ کی بات سننا چاہتے ہیں 
اس طرح ہم آپ سے بات کریں گے
نئے زاویے اور نئی نگاہ کے ساتھ اور میں خود اس پروگرام کو آپ کےساتھ ہوسٹ کروں گا تو کہنے لگے
یہ بڑا اچھا آئیڈیا ہے مگر آرٹسٹوں پر میں بات نہیں کرسکوں گا کیونکہ میرا فیلڈ نہیں 
جس پر میں نے کہا کہ آپ یہ ذمہ داری مجھ پر چھوڑ دیں
میں اس کو خود ہی مینج کرلوں گا تو وہ راضی ہوگئے جس کے بعد ہم دونوں نے مل کر
اس پروگرام کو قریبا 5سال تک کیا اس پروگرام کی سب سے بڑی خوبی ہم نے
دیگرشخصیات جوفلم سازی اور موسیقی سے وابستہ تھیں 
ان کو لائیو فون کال کے ذریعے پروگرام کا حصہ بنایا
جس پر ہمیں سامعین کی جانب سے سراہا گیا اور ڈاکٹر امجد پرویز نے مجھے خود ہی کہا کہ
یہ آئیڈیا تو بڑا کلک کرگیا ہے لوگ رات کے اس پہر میں بھی
ہم سے براہ راست فون کے ذریعے موضوع کی مناسبت سے بات کرتے ہیں 
جس سے میرے علم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس پروگرام میں ہم نے پاکستانی فلم اور موسیقی سے وابستہ لیجنڈز پر
عہد حاضر کے لیونگ لیجنڈز کے ذریعے بات کی جس کو سامعین سنتے
اور ہمیں فون کال کے ذریعے مطلع بھی کرتے ۔آج کل ہم اس پروگرام میں 
ملکہ ترنم نورجہاں کے فن اور شخصیت پر بات کررہے تھے اور ان کے فن پر جاری
اس پروگرام کا 9واںحصہ فروری میں نشر ہوا
جس کے بعد ڈاکٹر امجد پرویز ناساز طبیعت کی وجہ سے ریڈیو لاہور نہ آسکے
مگر انھوںنے بزریعہ فون کال پروگرام میں شرکت کی اور اپنا تجزیہ سامعین تک پہنچایا
اس پروگرام کی خوبصورتی اس کے سوالوں میں شامل تھی
جب میں کسی راگ ،شعر یاں آلات موسیقی کے حوالے سے بات کرتا تو ڈاکٹر صاحب مفصل جواب دیتے
مگر وقفہ کے دوران مجھے کہتے
یار مجھے فی البدی سوال نہ کیا کرو میں اس کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔
ڈاکٹر امجد پرویز سے تعلقات اس قدر بڑھ چکے تھے کہ میں کبھی کبھار دوپہر کو ان کے گھر چائے پینے کے لیےچلا جاتا
اور ان سے کسی گلوکار یاموسیقار کے حوالے سے بات شروع ہوجاتی
کئی گھنٹے ان کی رفاقت میں گز جاتے اسی محفل میں مجھے موسیقار خیام کے بارے میں پتہ چلا
جب ڈاکٹر صاحب نے ان سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا اور بات لتا منگیشکر تک پہنچی
ان سے میں نے سوال کیا کہ ملکہ ترنم نورجہاں سے کوئی ملاقات ہوئی ہے آپ کی تو انھو ں نے بتایا کہ
میں نے ملکہ ترنم کے ساتھ ایک ڈوئیٹ گایا تھا جس پر انھوں نے مجھے خاصا سراہا تھا
جبکہ مہدی حسن اورمسعود رانا کی آوز کے وہ خود بھی مداح تھے
محمد رفیع کے فن پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔
ڈاکٹر امجد پرویز مرنجاں مرنج شخصیت کے حامل اور خوبصورت جملہ تخلیق کرتے
ان کی محفل میں موجودگی سے محفل کی رونق بڑھ جاتی تھی ۔
وہ پیشہ کے اعتبار سے مکینیکل انجئینیر تھے
مگر موسیقی اور گائیکی کا شوق اور کلاسیکی گائیکی نے ان کے اندر کے فن کار کو ہمیشہ زندہ رکھا
انھوں نے اپنے دور کے ہر بڑے موسیقار کی دھنوںمیں گایا اور خوب گایا ۔
پاکستان کے شعبہ موسیقی کی پہچان ڈاکٹر امجد پرویز کو حکومت پاکستان نے 2000میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا
وہ اپنی وفات تک تقریبا 6عشروں تک کلاسیکل اور نیم کلاسیکل گلوکار کی حثیت سے ریڈیو لاہور سے وابستہ رہے ۔
انہوں نے شام چوراسی گھرانہ کے اُستادوں سے کلاسیکی گانے کی تربیت حاصل کی
ان کے اساتذہ میں اُستاد نذاکت علی خان،اُستاد سلامت علی خان ، اُستاد غلام شبیر خان،اُستاد غلام جعفر خان ، اختر حسین اکھیاں اور موسیقار میاں شہریار شامل تھے جن کی زیر نگرانی انھوں نے فن گائیکی کے اسرار ورموز سیکھے۔
ڈاکٹر امجد پرویز کلاسیکل گائیکی ٹھمری اور خیال کے علاوہ کافی‘ غزل‘ گیت اور فو ک جیسے نغمے موسیقیت کی بندش میں رہتے ہوئے کمال انداز میں پیش کرنے کا فن بخوبی جانتے تھے ۔
ان کی وفات سے شعبہ موسیقی جہاں ایک گلوکار اور میوزیکالوجسٹ سے محروم ہوا ہے
وہیں دوسری جانب ڈاکٹر امجد پرویز اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

ن و القم۔۔۔مدثر قدیر

11/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-7-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.