یکم مارچ بین الاقوامی تنظیم شہری دفاع

18

شہری دفاع کی خدمات میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اس کی زندگی ان گنت خطروں سے دوچار ہے۔ لہٰذا اسے ایک مسلسل جدوجہد کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
زندگی کو مختلف سہولتوں سے آراستہ کرنے کیلئے اس کو بے پناہ مسائل کا سامنا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں پرامن ، محبت ،رحم ، میل جول اور آسائش کا خواہاں رہا ہے۔
وہیں ڈر، خوف تحفظات ، پریشانی کا بھی شکار رہا ہے۔ پھر ڈر و خوف سے بچنے کی مختلف تدابیر بھی اختیار کرتا رہا۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان دفاع کا جذبہ بھی پیدائشی طور پر ساتھ لے کر آیا ہے۔
یوں شروع ہی سے مختلف دفاعی تدابیر دیکھنے کو ملتی ہیں
جو غیر منظم اور صرف فرد یا چند افراد تک محدود نظر آتی ہیںلیکن جوں جوں انسان مہذب ہوتا گیا اس کی یہ کوشش بھی منظم ہوتی گئی۔
دستیاب تاریخ میں شہری دفاع کی ابتدائی منظم کائوشیں بھی نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ میں نظر آتی ہے۔ جیسے ہجرت، خندق کا کھودنا، دوران حرب بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں پر ہاتھ نہ اٹھانا ،
بلواسطہ شہری دفاع ہی کی صورت ہے۔ 1931ء بیسوں صدی کی چوتھی دہائی میں
ایک فرانسیسی سرجن جنرل جارج سینٹ پال نے نیوکس  کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی
جس کا مقصد جنگوں کے دوران ایک ایسی جگہ مہیا کرنا ہے جہاں ان شہریوں کو رکھا جاسکے
جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہ ہو۔ فرانسیسی سرجن جنرل جارج سینٹ پال 1937ء میں انتقال کرگئے
تو اس تنظیم کا نام بد ل دیا گیا
اور اس کو پیرس سے جنیوا منتقل کر دیا گیا۔
اس کا نیا نام ’’بین الاقوامی تنظیم برائے حفاظت شہری آباد ی و تاریخی عمارت ‘‘ رکھا گیا۔ 1958ء میں اس تنظیم کو انٹرنیشنل سول ڈیفنس آرگنائزیشن کا نام دیاگیا۔
یعنی بین الاقوامی تنظیم شہری دفاع۔ یکم مارچ 1972کو اس تنظیم کا آئین و دستور نافذ کیا گیا
اور اسی مناسبت سے ہر سال یہ بین الاقوامی تنظیم یکم مارچ کو بین الاقوامی یوم شہری دفاع کے طور پر مناتی ہے۔
وطن عزیز پاکستان نہ صرف اس تنظیم کا ایک فعال ممبر ہے
بلکہ اس کی صدارت کے فرائض بھی انجام دے چکا ہے۔ اس وقت اس تنظیم کے 50ممبران ہیں۔
شہریوں کے دفاع کے حوالے سے
پاکستان میں
اولین طورپر یہ تنظیم ARP(ائیر ریڈپریکاشنری میئرز)
یعنی ہوائی حملہ سے بچائو کے اقدامات کے نام سے قائم ہوئی اور باقاعدہ محکمہ بنایا گیا
لیکن بڑھتے ہوئے زمینی و آسمانی خطرات کے پیش نظر 1951ء میں اسے باقاعدہ
اس میں بہتری کے اقدامات تجویز کئے گئے۔ اس محکمہ کو3 سطحوں پر آرگنائز کیا گیا۔ وفاقی سطح پر :

وفاق کی سطح پر اس کا تنظیمی ڈھانچہ کچھ یوں ہے۔
وزارت داخلہ، ڈائریکٹر جنرل
شہری دفاع، اسسٹنٹ ڈائریکٹر۔
وفاقی سطح پر اس کا کام:
۔صوبوں کیلئے پالیسی مرتب کرنا۔
۔ مرکزی حکومت کی جانب سے صوبوں کو فنڈز مہیا کرنا۔
۔تربیتی اداروں کا قیام۔
۔ نصاب مرتب کرنا۔
۔ مختلف کورسز کا شیڈول مرتب کرنا وغیرہ
صوبائی سطح پر:۔
صوبائی سطح پر اس کی تنظیم کچھ یوں ہے۔ سیکرٹری داخلہ، ڈائریکٹر سول ڈیفنس ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر
ذمہ داریاں
۔ وفاق کے ساتھ رابطہ
۔ وفاقی پالیسیوں پر عملدرآمد کیلئے وسائل کا انتظام۔
۔ ضلع کے سطح پر شہری دفاع کے دفاتر کا قیام۔
۔ ضلع کی سطح پر آپریشنل تیاریوں کیلئے سامان کی فراہمی۔
۔ تمام پبلک سکولوںو کالجوں و یونیورسٹیوں میں تربیتی پروگرام کا شیڈول مرتب کرنا شامل ہے۔
ضلع کی سطح پر :۔
ضلع کی سطح پر اس کی تنظیم یہ ہے۔ ڈی سی او کنٹرولر سول ڈیفنس، ڈسٹرکٹ آفیسر سول ڈیفنس، انسٹرکٹر سٹاف، ایمرجنسی سٹاف ، بم ڈسپوزل سٹاف۔
ذمہ داریاں:۔
اس کی ذمہ داریوں میں ضلع کی سطح پر صوبائی پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا۔
۔ سکولوں و کالجوں، ضلعی ادارہ جات، جنرل پبلک کو ریسکیو، فسٹ ایڈ، فائر فائنٹنگ کی تربیت سے آراستہ کرنا۔
۔ کسی بھی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرنا۔
۔ ضلع کی سطح پر رضا کاران کو آرگنائز کرنا۔
۔ رضا کاران کی بھرتی اور تربیت کا بندوبست کرنا۔
۔ ضلع میں مختلف ادارہ جات میں فائر فائٹنگ، سیفٹی و سکیورٹی کے انتظامات کو یقینی بنانے کے اقدامات کرنا۔
۔ جنگ کے وقت کے لئے پہلے سے سکیمیں تیار کرناوغیرہ شامل ہیں۔
شہری دفاع کے ذمہ زمانہ امن اور جنگ ہر دو صورتوں میں شہریوں کی حفاظت جیسا عظیم کام ہے۔
گویا بم پھٹنے، بلڈنگ گرنے، سیلاب آئے، روڈ ایکسڈنٹ ہو، آگ لگے، زلزلے وغیرہ کے دوران
شہریوں کو ریسکیو ، فرسٹ ایڈ، فائرفائٹنگ ، بم ڈسپوزل ، زخمی کو ہسپتال تک پہنچانے کا انتظام
شہریوں کا انخلاء جنگ کے ضمن میں جملہ حفاظتی اور
احتیاطی تدابیر از قسم خندقوں کی کھدائی، شہریوں کو بروقت خبردار کرنا
پناہ گاہوں کا اہتمام ، تجدید روشنی کے انتظامات جیسے بے شمار اہم کام یہی محکمہ انجام دیتا ہے۔
وارڈن سروس اس کا ایک انتہائی اہم اور بے پناہ اہمیت کا حامل شعبہ ہے
جو صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے کام کرنے والے بے لوث رضا کاران پر مشتمل ہے
جو شہری دفاع کے زیراہتمام ہر شہر کے ہر محلے میں مصروف عمل ہے۔
بلاشبہ یہ رضا کاران ہماری قوم کا سرمایہ افتخار ہیں۔آج اس موقع پر جب شہری دفاع مارچ میں منایا جا رہا ہے
میں ان رضا کاران کی خدمات کو سلام پیش کرتے ہوئے حکومت وقت سے توقع کرتا ہوں
کہ شہری دفاع جیسے بنیادی اہمیت کے حامل اس محکمہ کو جو روز اوؔل سے یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے
اور جس کے پاس افرادی قوت (ہنرمند) کی بھی کوئی کمی نہیں۔
جدید تقاضوں کے پیش نظر جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور اسے جدید سہولتوں اورسامان سے آراستہ کیا جائے تاکہ کسی بھی نہ ناگہانی صورتحال میں ہم دوسروں کے دست نگر نہ ہوں
بلکہ ایسے وقت میں اسی محکمہ کے نوجوان تمام امدادی سروسز سے پہلے ہر قسم کے حالات کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوسکیں اس کے ساتھ ساتھ عام شہریوں سے یہ اپیل ہے کہ
وہ شہری دفاع کی تربیت لازمی حاصل کرکے اپنے آپ کو اور اپنے گلی محلے کے باسیوں کو محفوظ بناتے ہوئے ملک کے اندرونی محاظ کو مضبوط اور محفوظ بنائیں۔
آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ ہم کو اپنے وطن عزیز پاکستان کی بے لوث خدمت کی توفیق فرمائے۔آمین

تحریر: خواجہ الطاف الخیری
ڈپٹی ڈویژنل وارڈن (پبلسٹی ونگ) راولپنڈی

04/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-25-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.