نذیر ناجی اور مسکراتی موت

22

صحافت میں صاحب کمال ہستیوں میں اعجاز رضوی عباس اطہر ،منو بھائی ،ظہیر کاشمیری ، عالی رضوی ، نذیر ناجی کے ساتھ کام کرنے کا بھی مجھے اعزاز حاصل رہا ہے
ان تمام شخصیات میں انسان سے محبت کا رنگ نمایاں رہا۔
گزشتہ دنوں نذیر ناجی کے انتقال کی خبر نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔
ایک مدت سے ملاقات نہیں رہی ،علالت کی خبر تھی مگر دیکھنے نہ جا سکا جس کا قلق رہے گا
وہ بھی زمانہ تھا جب نذیر ناجی کیساتھ روز ملاقات رہتی تھی
ذوالفقار علی بھٹو کے دیرینہ ساتھی اور سابق ڈپٹی سپیکر رانا شمیم احمد خان کی دعوت پر ہم دونوں مہمان ہوا کرتے تھے ۔
رات گئے ہم سیاست اور ادب پر گفتگو کرتے اس دوران خالد ٹکا ،جہانگیر بدر ،ملک مختار اعوان اور عباس اطہر کے ساتھ خالد چودھری بھی تشریف لاتے اور پھر سیاست سے شاعری تک ہر موضوع پر جم کر مکالمے ہوتے ۔
نذیر ناجی سے طویل عرصے بعد 90ء کی دہائی میں پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا
میرے ساتھ اکثر ریاض صحافی بھی رانا شمیم کے دسترخوان پر ہوتے
انہی دنوں خاور نعیم ہاشمی بھی آتے رہے اور پھر یہ بیٹھک باری علیگ کے صاحبزادے مسعود باری کے پرانی انارکلی کے چوبارے پر سجنے لگی
تاہم دفتر کی گوناں گوں مصروفیات کے سبب وہاں نہ جاسکا ،اکثر رانا شمیم فون کرتے ۔
پھر رانا شمیم احمد خاں کے گھر ہی پر دوبارہ محفلیں سجنے لگیں ،ان میں اب چودھری انور عزیز بھی شامل تھے ۔
تاہم نذیر ناجی بدستور انکی محفلوں کے روح رواں تھے
خاکسار بھی اکتساب فیض کی خاطر ان کے درمیان ہوتے ۔میری شاعری بھی سنی جاتی
ان دنوں ایک قومی اخبار کے صفحہ اوؔل پر میرا قطعہ شائع ہوا کرتا تھا
نذیر ناجی کے کالموں پر رات گئے تبصرے ہوتے وہ کالم بھی دوستوں کے درمیان کافی دنوں تک موضوع بحث رہا
جس میں نذیر ناجی نے دعویٰ یہ کیا تھا کہ جب وہ کالم لکھ رہے ہوتے ہیں تو
دونوں بھائی (نواز شریف اور شہباز شریف)ان کے گلاس میں برف توڑ کر ڈال رہے ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد جب 1999ء میں 12اکتوبر برپا ہوا تو کچھ دنوں بعد ہی نذیر ناجی کو “رہائی “مل گئی ۔
نذیر ناجی پھر ہماری مجلس کا حصہ تھے ،ایک شب کسی نے جملہ کس دیا کہ
ناجی صاحب “کڑاکے “نکلوادینے والی بات تو آپ نے کہی تھی اور بے چارے مشاہد حسین سید کے گلے پڑ گئی
جس پر نذیر ناجی غصے میں آگئے ،یہ جملہ کسنے والے اس محفل میں نووارد تھے
یہ دراصل خالد ٹکا کے ساتھ اتفاقاً آگئے تھے اور سنی سنائی باتوں پر ہی سوال داغ ڈالا
اس پر نذیر ناجی نے بتایا کہ وہ شروع سے ہی انہیں روکتے رہے ،تقریر لکھوانے کی حد تک میرا عمل دخل ضرور رہا
وہ بھی میں نے ان کے مافی الضمیر کو سن کر (نوٹس لیکر)تحریر کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی
اور آخری دم تک انہیں کسی بھی طاقت کے ساتھ انہونے ایڈونچر سے روکتا رہا
نذیر ناجی نے کہا کہ ’میں نے نوٹس دیکھنے کے بعد رائے دی تھی کہ وزیراعظم کو
اس تقریر کی مہلت نہیں ملےگی
جس پر سینٹر پرویز رشید نے کہا کہ آپ سے مشورہ نہیں مانگا گیا صرف تقریر لکھنے کا کہا گیا ہے
نذیر ناجی نے بتایا کہ پہلے بھی میں نے لاہور ہائیکورٹ سے بینظیر کو سزا دلوانے پر
انہیں خبردار کیا تھا کہ یہی کام پھر آپ کے ساتھ بھی ہوگا اور جیسے کہا تھا ویسے ہی ہوا ۔
بلاشبہ نذیر ناجی رانا شمیم کی محفل میں سیاسی حالات پر جو تبصرہ کیا کرتے اور
جو بھی پیشن گوئی کرتے وہ اکثر کچھ دنوں میں پوری ہو جایا کرتی تھی
یہی سبب تھا کہ رانا شمیم خاں کا توہم پرست ڈرائیور انہیں پیر کامل سمجھ کر مجھے
ان سے تعویز لیکر دینے کی فرمائش کربیٹھا اور کچھ ہی دنوں بعد اس کا یہ امیج بھی خود نذیر ناجی نے پاش پاش کردیا
جب انہیں ہم چھوڑنے گھر جارہے تھے تو نذیر ناجی آدھے راستے ہی نہر کی
دوسری جانب گاڑی موڑنے کی ہدایت کر دیتے اور پھر گھر نہ ملتا ،پوری رات اسی کشمکش میں ڈھل گئی
طلوع صبح پر مجھے ان کے گھر کا رستہ یاد آیا اور ناجی صاحب کو خاموش رہنے کی گزارش کردی ۔
جس پر وہ اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر معصوم بچے کی طرح خاموش ہوگئے ۔
میں نے اندازے سے نہر کی دوسری جانب جاکر گارڈ سے دریافت کرنے کی کوشش کی
اور پوچھا کہ نذیر ناجی صاحب کا گھر کہاں ہے ،اسی اثنا پتہ نہیں کب نذیر ناجی گاڑی سے نکل کر گارڈ کے اور میرے درمیان اپنا نام سن کر بولے “میں ہوں نذیر ناجی” ۔۔۔
گارڈ بھی صورتحال سمجھ کر مسکرایا اور بولا یہ تو خود آ گئے ہیں
اپنے ہی گھر میں ہیں ۔اس کے بعد بھی رانا شمیم کے گھر کچھ ہی ملاقاتیں رہیں
مگر انہیں گھر چھوڑنے کی نوبت نہیں آئی ۔عباس اطہر اور پھر رانا شمیم احمد خاں کی وفات کے بعد
پھر کوئی محفل نہ جم سکی ۔
ہمارے ایک دیرینہ دوست مسعود قزلباش نے بتایا کہ نذیر ناجی آپ کو یاد کرتے ہیں
اس وقت میں ایکسپریس میں تھا اور نذیر ناجی روزنامہ دنیا کے گروپ ایڈیٹر بن گئے تھے ۔
صرف فون پر ہی بات ہوئی جس پر انہوں نے طنزیہ کہا کہ کب آؤ گے ملنے یا تمھیں سلطان لاکھانی (ایکسپریس کے مالک ) نے میاں عامر محمود کے لوگوں سے دور رہنے کی ہدایت کر رکھی ہے ۔
سلطان لاکھانی سے تو میری خود پندرہ برس میں ایک آدھ ہی ملاقات رہی مگر
ایکسپریس میں ان کے “اہلکاروں” کی ای میلز کے سلسلے کچھ اسی طرح کے تھے
جو ادارے کے کسی بھی رکن کی کسی معاصر میڈیا گروپ کی بڑی شخصیت سے ملاقات کو
سازش بناکر اس کی نوکری وبال بنانے کے لئے کافی تھے ۔
تاہم اس طرح کی اطلاع نذیر ناجی سے ملنے پر مجھے بڑی حیرت سی ہوئی ۔1942ء کو پیدا ہونے والے نذیر ناجی نے بڑے کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے اہداف حاصل کئے ۔
اگرچہ پرائمری تک ہی اکیڈمک تعلیم حاصل کی ۔مگر صحافت میں قدم رکھتے ہوئے
علم کے خزانے سمیٹتے رہے اور پھر ان پر ایم فل کے تھیسز لکھے گئے ۔صحافت میں ممتاز مقام بنایا ۔
ان کی تجزیہ نگاری کی دھوم رہی ،کالم نویسی میں اپنے منفرد اسلوب کی دھاک بٹھا دی ۔
انتہائی ملنسار ،انسان دوست اور دوسروں کے دکھ درد بانٹ کر مطمئن رہنے والے
نذیر ناجی نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی ۔
حب الوطنی کو شعار بنائے رکھا ۔
سیاست میں اصول وضع کئے ۔ان کے مشورے ،عقل ودانش ،فہم وفراست اور دوراندیشی کا مظہر رہے ۔
نصف صدی تک کالم نویسی کی دھاک بٹھانے والے نذیر ناجی خوبصورت شاعر بھی ہیں ،
ان کی نظم ہوا چلی کا آخری بند پیش ہے .ع

“مگر وہ مند مند مسکراتی موت

بھر کے جام زندگی

مجھے نہ اب پلائے گی

کہ آج اس کی یاد بھی

چہار سمت دوریوں کی تیرگی سجا چلی

ہر اک نشاں مٹا چلی

ہوا چلی”۔

کنکریاں ۔۔۔۔۔زاہدعباس سید

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-17-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.