امریکی شہر وں کی طرح لاھور ایک ایسا شہر ھے چوبیس گھنٹے اپنی ترجیحات زندگی اور عوام کے لئے سہولیات فراہم کرنے میں دنیا میں مشہور ھے۔اور جس نے ہمیشہ علم، تہذیب، ثقافت اور خوشبوؤں کی پہچان دی، لیکن اسی شہر کے گلی کوچوں میں وقت کے ساتھ ساتھ ایسے ناسور بھی پنپنے لگے جنہوں نے معاشرتی ڈھانچے کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا۔ ان ناسوروں میں سب سے خطرناک منشیات کی لعنت ھے۔ یہ لعنت نہ صرف نوجوان نسل کو برباد کرتی ھے بلکہ خاندانوں کو اجاڑ دیتی ھے، معیشت کو کھا جاتی ھے اور سماج کے مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹتی ھے۔ والدین کی آنکھوں کے تارے جب نشے کی دنیا میں داخل ھوتے ہیں تو ان کے خواب بکھر جاتے ہیں، ماں باپ کا سہارا چھن جاتا ھے اور معاشرہ بربادی کی راہ پر نکل پڑتا ھے۔ یہ حقیقت ھے کہ منشیات فروش صرف ایک مجرم نہیں بلکہ وہ معاشرتی مجرم ھے جس کے ہاتھوں میں نوجوانوں کی زندگیاں، گھرانوں کی خوشیاں اور ملک کا مستقبل یرغمال بن جاتا ھے۔
ایسے حالات میں جب پولیس کے کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری آن پڑتی ھے کہ وہ نہ صرف ان منشیات فروشوں کو قانون کے کٹہرے میں لائے بلکہ معاشرے کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لئے عملی اقدامات بھی کرے، تو یہ کام صرف ایک فرض نہیں بلکہ ایک مقدس مشن کی حیثیت اختیار کر لیتا ھے۔ لاہور پولیس کی تاریخ میں ایسے کئی ادوار گزرے جب اس مشن کو انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے آگے بڑھایا گیا۔ انہی ادوار میں ایک نمایاں کردار ڈاکٹر عثمان انور کا ھے، جنہوں چھبیس سال پہلے پولیس بطور اے ایس پی کام لاھور سے شروع کیا ان کی سوچ، ان کا عزم اور ان کا ویژن اس بات کا ثبوت تھا کہ اگر قیادت ایماندار اور دلیر ھو تو بڑے سے بڑے مافیا کا خاتمہ بھی ممکن ھے۔
ڈاکٹر عثمان انور نے اپنی جوانی کے دنوں میں ھی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ نشے کے اندھیروں کو ختم کریں گے۔ اس وقت بھی ان کے ساتھ پولیس نوجوان بطور اے ایس آئی دلیر افسر میاں جسیم ان کی ٹیم میں موجود تھے، جنہوں نے ہر محاذ پر اپنے افسر کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس دور میں کئی بڑی کارروائیاں کر کے ڈرگ ڈیلرز کا خاتمہ کیا گیا، ایسے اڈے ختم کئے گئے جہاں سے زہر بیچا جاتا تھا، اور بڑے بڑے گروہ قانون کے شکنجے میں آئے۔ ان کارروائیوں نے ثابت کیا کہ پولیس اگر نیت صاف رکھے تو وہ کسی بھی منظم جرائم پیشہ گروہ کے خلاف کامیاب ہو سکتی ھے۔
یہی جذبہ بعد میں اس وقت مزید پروان چڑھا جب ڈی آئی جی عمران کشور نے بطور فل انچارج آرگنائزڈ کرائم یونٹ خدمات انجام دیں۔ عمران کشور ایک ایسا نام ھے جو اپنی جرات مندی اور دور اندیشی کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے دور میں بھی میاں جسیم ان کی ٹیم کا حصہبطور ڈی ایس پی تھے اور اس ٹیم نے بڑے بڑے ڈرگ ڈیلرز کا قلع قمع کیا۔ وہ ڈیلرز جو برسوں سے قانون کی گرفت سے باہر تھے، جو سیاسی و معاشرتی اثر و رسوخ کے سہارے عوام کی نسلوں کو برباد کر رھے تھے، وہ سب ایک ایک کر کے قانون کی گرفت میں آئے۔ یہ کارروائیاں محض پولیس آپریشن نہیں تھیں بلکہ یہ عوام کے اعتماد کی بحالی اور معاشرتی تحفظ کی نئی بنیادیں تھیں۔
میاں جسیم جیسے جوان افسران نے یہ ثابت کیا کہ اگر ٹیم ورک، عزم اور ایمانداری کو اپنا شعار بنایا جائے تو جرائم پیشہ گروہ زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکتے۔ ان کے کام نے پولیس کے اندر بھی ایک نیا حوصلہ پیدا کیا اور نائجیریا کے بڑے ڈرگ ڈیلرز کو فیصل ٹاون کے علاقہ سے گرفتار کر کے عوام میں یہ پیغام گیا کہ قانون سب کے لئے برابر ھے۔جو وقت کی بہت بڑی کامیابی تھی جس میں
نام نہاد یو ٹیوبر میڈیا کو خرید کر ڈی آئی جی عمران کشور کے خلاف یہ تثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ کالی شکل اور کالی کرتوت والے نائجیریا کے بدمعاش پاکستانی نوجوانوں کی رگوں میں اندھیرے انڈیل رھے تھے۔ وہ پولیس کی کامیابی تاریخی تھی لیکن آج بھی جب ہم پنجاب کے موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ھے کہ منشیات کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ مندرجہ بالا افسران کے تبادلوں سے اس ناسور نے ایک بار پھر اپنی جڑیں پھیلانی شروع کر دی ہیں۔ لیکن فرق یہ ھے کہ اب اس جنگ کو ایک نئے ویژن کے ساتھ لڑا جا رہا ھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے یہ واضح کر دیا ھے کہ ان کا خواب ایک ایسا پنجاب ھے جو منشیات سے پاک ھو۔ یہ ویژن محض ایک نعرہ نہیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے حقیقت کا روپ دھار رھا ھے۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز کے زیر سایہ پولیس کو یہ ہدایت دی گئی ھے کہ وہ کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لائے اور نشے کے دھندے سے وابستہ ہر شخص کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ ان کا یہ ویژن دراصل نوجوان نسل کو بچانے کا عزم ھے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اگر آج اس لعنت پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے کل میں قوم کی بنیادیں کھوکھلی ہو جائیں گی۔ یہی وجہ ھے کہ انہوں نے پولیس فورس کو جدید سہولیات دینے کے ساتھ ساتھ اس مہم کو صوبے بھر میں ایک عوامی مہم میں بدلنے کا فیصلہ بھی کیا ھے۔
اس جدوجہد میں لاھور پولیس ایک بار پھر اپنی روایات کے مطابق میدان میں آگے بڑھ رھی ھے۔ ڈاکٹر عثمان انور جیسے اعلی افسران کے عزم، عمران کشور جیسے کمانڈر کی قیادت، اور میاں جسیم جیسے جواں سال محنتی پولیس آفیسرز کی کوششوں کو آج ایک بڑے تناظر میں دیکھا جا رہا ھے۔ لیکن اب یہ افسران ان مقاصد کے لئے کام نہیں کر رھے بلک کسی اور شعبے میں کام کر رھے ہیں۔
یہ سب کاوشیں مریم نواز کے وژن کے ساتھ مل کر ایک نئے