موسم گرما کی طویل چھٹیاں آخر کار اختتام پذیر ہوئیں اور بچوں کی موج مستیاں ختم ہوئیں تو والدین اور اساتذہ نے سکھ کا سانس لیا کہ اب ایک طویل ترین وقفے کے بعد تعلیم کا تسلسل پھر بحال ہونے جارہا ہے ۔سوشل میڈیا پر اسکول کھلنے پر ایک استاد کو سجدہ شکر ادا کرتے دیکھا جاسکتا ہے ۔اسکول کھلنے پر ایک لطیفہ سننے میں آیا کہ جب طویل چھٹیوں کے بعد سکول کے پہلے دن ہی اچانک ایک بچے نے سوال کردیا کہ ” اب اسموگ اور پھر سردیوں کی چھٹیاں کب ہوں گی ؟”جی ہاں ! اس مرتبہ گرمیوں کی چھٹیاں سیلاب ،اسموگ اور سردیوں کی چھٹیوں کے ساتھ ہی جڑی دکھائی دۓ رہی ہیں ۔ابھی والدین اور اساتذہ کا یہ سکون مکمل بھی نہ ہو پایا تھا کہ ایک کے بعد ایک مشکل دروازہ کھٹکھٹانے لگی ہے ۔اور ایک نئے اور بڑے سیلابی ریلے کی خبریں گردش کر رہی ہیں ۔پہلے ہی سیلاب نے راستے بہا دئیے اور اسکول کی عمارات مخدوش کر دی تھیں پھر سیلاب کی باعث خوف کے ساۓ میں اسکول تو کھول دئیے گئے مگر پھر سے سیلاب کی آمد نے والدین کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے ۔خدا کرے کہ یہ ریلہ بھی بحفاظت گزر جاۓ اور اسکول بند نہ کرنے پڑیں مگر سوال یہ ہے کہ سیلاب کے بعد جو وبائی بیماریوں کا سیلاب اور طوفان آرہا ہےاس سے کیسے بچا جاۓ گا ؟ دوسری جانب معمول کے مطابق اسموگ اور دھند کے خطرات نومبر میں پھر منڈلا رہے ہیں ۔اس دوران بیماریوں کے پھیلنے اور استوں کے دکھائی نہ دینے کی وجہ سے اسکول بند کرنا پڑتے ہیں پھر سردیوں کی یخ بستہ ہوائیں دسمبر میں آنے کو تیار ہیں جو پہلے ہی گیس اور توانائی کے بحران سے نبردآزما قوم کے لیے نئے امتحان کا عندیہ دے رہی ہے ۔دسمبر کی یا سردیوں کی دس سے پندرہ دن کی چھٹیاں تو شیڈول کے مطابق ہی ہونی ہوتی ہیں ۔اس مرتبہ پھر گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید سردی پڑنے کی پیشن گوئی کی جارہی ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اسکول بار بار ایسے ہی بند ہوتے رہیں گے ؟یا پھر ہم اور ہماری حکومت سنجیدگی سے اس بارے میں کسی حل کی سوچ رکھتی ہے ؟ کہتے ہیں کہ علم روشنی ہے اور روشنی ہر جانب پھیلنی چاہیے کیونکہ یہ ہماری زندگیوں اور معاشرے میں اجالے لاتی ہے ۔ترقی اور خوشحالی کا ہر راستہ تعلیم سے ہوکر گزرتا ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ پہلے وقتوں میں علم کے حصول کے لیے لوگ کتنا سفر کرتے اور کتنی صعوبتیں جھیلتے تھے اور دنیا کہ بیشتر ایجادات ہمارے بزرگوں نے علم کی بدولت ہی کی تھیں ۔آج آسائشوں کے دور میں اسکول کھلے رکھنا کس قدر ضروری ہے یہ آج ہمیں سوچنا ہو گا ؟
اگر ہم پچھلے برسوں کے حالات دیکھیں تو جواب زیادہ خوش کن نہیں دکھائی دیتا ہے۔ہمارے ہاں ہر قدرتی آفت ،قومی حادثہ یا موسمی چیلنج کا پہلا شکار تعلیم اور ہمارے بچوں کے اسکول بنتے ہیں ۔ہمارے اور ہماری حکومت کے پاس سب سے آسان حل یہ ہی رہتا ہے کہ “اسکول بند کردو ” مگر کیا تعلیم اتنی ہی غیر ضروری ہے کہ اسے ہر بار ہر موقع پر قربان کردیا جاۓ ؟تعلیمی ادارے صرف کتابوں کا گہوارہ نہیں ہوتے بلکہ بچوں کی شخصیت ،ان کے خواب اور قوم کا مستقبل بھی یہیں سے پروان چڑھتا ہے ۔جب بار بار یہ تسلسل ٹوٹتا ہے تو صرف نصاب پیچھےنہیں رہتا بلکہ سوچنے کا عمل بھی کمزور پڑنے لگتا ہے اور وقت کا ضیاع الگ ہوتا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کریں کہ اس تسلسل کو ٹوٹنے نہ دیا جاۓ ؟ اگر ہم اپنا معمول نہ بدلہ اور وہی پرانی روایت برقرار رکھی اور اسکول کو تالہ لگانے کو برائی نہ سمجھا تو یہ تالہ اسکول پر ہی نہیں قوم کی فکری و تعلیمی ترقی پر بھی لگ سکتا ہے جو قوم کو اندھیروں میں دھکیلنے کے مترادف ہو گا ۔ہمارے ملک میں صرف سرکاری ونجی اسکول ہی نہیں بے شمار اسلامی مدارس بھی تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے مدارس اور قرآنی مکتب آخر کیسے ہر موسم اور ہر حالات میں پورے سال کھلے رہتے ہیں ؟ اور اپنے تعلیمی تسلسل کو برقرار رکھتے ہیں ۔یہ مدارس سختی ترین سرد پہاڑ ی علاقوں اور گرم ترین صحراوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوتے ۔آخر کیوں ؟ انہیں سردی اور گرمی میں چھٹیوں کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہوتی ؟اس لیے کہ بچوں ،اساتذہ اور والدین کے اہداف مقرر ہوتے ہیں اور ان کا مقصد ان کی راہ میں آنے والی ہر روکاوٹ عبور کرنے کے لیے کوئی بہانہ تلاش نہیں کرتا ۔بلکہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اسکول کی چھٹیوں کے دوران ہماری مائیں اپنے بچوں کو مسجد یا مدرسہ میں قرآنی تعلیمات کے لیے بھجوا دیتی ہیں ۔میں خود چھٹیوں کے دوران مسجد میں قائم مدرسہ میں قرآن پڑھنے جاتا تھا ۔یہ تعلیمی سلسلہ صدیوں سے کھلے آسمان ،درختوں ٹوٹی پھوٹی عمارات اور مسجد کے برآمدوں میں جاری نظر آتا ہے ۔ملک میں بنیادی تعلیم کا تصور مضبوط تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم اسے اپنا اولین مقصد اور ضرورت بنا لیں تو رات کی کلاسیں اور وقت کی موسم کے مطابق تبدیلی بھی مدد گار ہوسکتی ہیں ۔
یہ روش ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم نے تعلیم کو واقعی اپنی قومی ترجیحات میں شامل رکھنا ہے ؟ تو وقت کا تقاضا یہ ہےکہ ہم اسکول بند کرنے کی بجاۓ کوئی ایسی تدبیر تلاش کریں کہ “سانپ بھی مر جاۓ اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ” اسکول بھی بند نہ ہوں اور تعلیمی تسلسل بھی جاری رہ سکے ۔اس کے لیے ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی جانب دیکھنا ہو گا کہ وہ ایسے حالات میں اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کر رہے ہیں ؟ جہا ں سخت ترین سردی پڑتی ہے کیا وہاں بھی باربار اسکول بند ہونے سے تعلیمی سلسلہ رک جاتا ہے ؟ اگر ہم نے اسے اپنی بقا ،ترقی اور مستقبل کی ضمانت سمجھنا ہے تو حالات جیسے بھی ہوں قومی تعلیمی مشن جاری رہنا چاہیے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور معاشرہ تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے ۔دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کبھی اپنی تعلیم پر سمجھوتہ نہیں کرتے اور ہمیشہ مختلف طریقوں سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں ۔ کرونا وبا کے دوران آن لائن تعلیم کے چرچے ہم سن چکے ہیں ۔ہمیں بھی جدید طرز تعلیم کو اپنانا ہو گا اور اساتذہ کو متبادل طریقوں سے تعلیم دینے کی تربیت دینا ہوگی ۔آن لائن سہولتوں کو عام کیا جاۓ اور بحرانوں میں تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لیے ہنگامی منصوبہ بندی پہلے سے تیار رکھی جاۓ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہر سال موسمی حالات کی باعث اسکول بند کرنے پڑیں گے اور تعلیمی تسلسل برقرار نہیں رہ پاۓ گا ۔موسمی حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں آن لائن تعلیم کی سہولت ہر حال میں میسر ہوتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ تعلیم ہماری پہلی ترجیح ہو نی چاہیے ۔اب اسکول کھل چکے ہیں دعا کریں کہ اب ہماری یہ تعلیمی سرگرمیاں کسی تعطل کا شکار نہ ہوں اور اسکول بند ہونے کی خبر بار بار سننے کو نہ ملے ۔اس کے لیے ہمیں اور ہماری قوم کو ملکر سوچنا ہوگا ۔