سانحہ ماہی چوک ، قانون اور کریمنلز

تحریر ؛ رانا سہیل عامر

2

31 جولائی کا سورج ڈوبتے ڈوبتے رحیم یار خان کے پانچ پولیس ملازمین کی شہادت کا نوحہ پڑھتے ہوئے افق کے اس پار اتر گیا ۔ صادق آباد ماہی چوک کے نزدیک ایلیٹ فورس کے تھکے ماندے سپاہی زمین پر ٹکے ہوئے چار بانسوں کے سہارے معمولی کپڑے کی تنی ہوئی چادر کے نیچے ٹینٹ نما مورچے میں دن بھر لاوا اگلتے سورج کی جھلسا دینے والی دھوپ کی تپش سے نڈھال اپنی ڈیوٹی پہ مامور تھے ۔ اس رات کی خوف ناک اور گہری تاریکی میں پھیلی ہوئی عجیب سی بھیانک سراسیمگی اور رک رک کر چلتی ہوا کے جھونکے چھپے ہوئے دشمن کی ان سنی ، ان دیکھی خفیف سی آہٹ کا پیغام دے رہے تھے ۔ اطراف میں کوسوں دور پھیلے ہوئے ویرانے میں چار گز زمین پہ خشک مٹی کی چار دیواری سے بنا ہوا یہ سادہ سا ٹینٹ نما مورچہ ان کی غیر محفوظ پناہ گاہ تھی مگر انھوں نے اس کو اپنے لئے غنیمت سمجھ لیا تھا ۔ اسی تنگ و دشوار پناہ گاہ سے انھیں دشمن پہ نظر بھی رکھنی تھی اور محفوظ رہ کر دشمن کے اچانک حملے کا سامنا بھی کرنا تھا ۔ اسی جگہ پہ کھانا پینا تھا اور یہیں پہ آرام بھی کرنا تھا ۔ کھلے آسمان تلے سفاک دشمنوں کے درمیان نہ آرام کا کوئی لمحہ نصیب تھا نہ سر پہ کوئی مضبوط سہارا تھا ۔ ایک جوان جام خلیل جس کا تعلق شہر خانپور کی بستی ہاکڑا سے ہے ۔ میرے قریبی دیرینہ دوست جام شکیل کے بڑے بھائی جو شادی شادی اور چار پانچ بچوں کے واحد کفیل تھے ۔ جبکہ زیادہ تر جوان غیر شادی شدہ تھے ۔ ان کی عمریں بیس سے بائیس اور چوبیس سال کے درمیان تھیں ۔ رات گہری ہوئی تو دشمن کے بے آواز قدم ان کی بے آرام زندگیوں کی طرف اٹھ چکے تھے ۔ بھاری راکٹ لانچروں اور جی تھری کی خونخوار گنوں کے مقابلے میں ان کے پاس صرف عام روایتی ہتھیار تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ آخر وہ ہی ہوا کہ جس کا خدشہ لاحق تھا ۔ ان ملازمین کی بے آرام جانوں پہ حملہ اتنا اچانک اور شدید ہوا کہ قوم وطن عزیز کے ان سپاہیوں کو اپنے ارد گرد مٹی کی چار دیواری سے سر اٹھانے کی فرصت بھی نہ مل سکی۔ خشک مٹی سے بنی خیمے کی دیواریں ریت مانند بکھر گئیں ۔ لیکن سلام ان شہیدوں کی جرآت پر کہ دشمن کی گولیوں کا سامنا مردانگی سے کرتے ہوئے جاں بحق ہوئے ۔ بھاری ہتھیاروں سے نکلنے والے گولوں اور گولیوں کی اندھا دھند بوچھاڑ کے سامنے ان جوانوں میں سے جس کسی کا سر مٹی کی دیوار سے اٹھا وہ پھر دوبارہ نہ اٹھ سکا ۔ یہ سات ملازمین عہدے کے لحاظ سے کانسٹیبل تھے یعنی کہ سب کے سب ہی غریب تھے ۔ پانچ شہید ہوئے اور دو زخمی ہوئے ۔ پولیس کانسٹیبل کہ جن کی اہمیت پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند سمجھی جاتی ہے ، دشمنوں کا آسان ترین ہدف بن گئے ۔ وطن کی مٹی تھی وطن کے کام آگئی ۔ وہ آخری پل اور وہ لمحے جب جان سے گزرنا ان کے لئے یقینی ہو چکا تھا تو جان دیتے وقت آپس میں ان کی گفتگو کیا اور کیسی ہوئی ہوگی؟ کیسے سینے اور سر میں گولیاں اترتے وقت انھیں ان کے خاندان کی یاد اور بچوں کی فکر نے ستایا ہوگا ؟ کیسے ان کو وہ دن یاد آیا ہوگا جب پہلی بار انھوں نے پولیس کی وردی پہن کر خود کو آئینے کے سامنے دیکھا ہوگا ؟ زندگی اور موت کے درمیان گزرنے والے ان مختصر لمحوں کی یہ تو محض ایک خیالی اور تصوراتی تصویر ہے جو میرے قلم کی نوک نے سسکیاں بھرتے ہوئے لکھ ڈالی ہے ۔ اور اگر اس کی سچائی کا بھید آسمان پہ کھل جائے تو آسمان پھٹ جائے اور اگر پنجاب پولیس کے حساس اور زندہ دل افسران ان لمحات کو اپنی ذات پہ ایک بار محسوس کر کے دیکھ لیں تو ان کی بقیہ زندگی کی راتوں کی نیند ہمیشہ کے لئے اڑ جائے ۔ سوشل میڈیا پہ جام شہادت نوش کرنے والے جام خلیل کی درد بھری آواز کی ریکارڈنگ میں چارپائیوں کے لئے التجا کی باز گشت چھپی ہوئی بات نہیں رہی ۔ اس ریکارڈنگ سے ان جوانوں کی شدید جسمانی تھکاوٹ اور زہنی بد سکونی کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ ایک طرف تو کچہ کریمنلز سے نبرد آزمائی کے لئے جاری ہونے والے کروڑوں اربوں کے حکومتی دعوے اور دوسری طرف شہیدوں کی بسی اور محرومیت کی یہ داستان ۔ ماجرا میرے الہی یہ کیا ہے ؟ یکم اگست کا دن چڑھا تو رحیم یار خان کی فضاؤں میں شہیدوں کے لہو کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ جیسے جیسے خبر پھیلتی گئی شہریوں کے دل صدمے سے افسردہ ہوتے گئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کہرام برپا ہوگیا اور پورا ضلع سوگ میں ڈوب گیا ۔ گھروں کے گھر اجڑ گئے ۔ ہنستے مسکراتے بچے یتیم ہو گئے ۔ شہیدوں میں زیادہ تر بیس بائیس سال کے غیر شادی شدہ نوجوان تھے ۔ ان کے ہاتھوں پہ مہندی کے رنگ کھلنے تھے مگر مہندی کی جگہ لہو نے لے لی۔ چہروں پہ خوشیوں کی رونق آنی تھی مگر آتے آتے رہ گئی اور یہ چہرے دنیا سے ہمیشہ کے لئے اٹھ گئے ۔ جن کے سروں پہ سہرے سجنے تھے اب ان کی قبروں پہ پھول رکھے جائیں گے ۔ سانحہ نواز آباد کا رنج ابھی کم نہ ہوا تھا کہ پھر ایک نیا سانحہ ہوگیا اور پھر نئی قیامت برپا ہوگئی ۔ آج ہھر پولیس کے پانچ جوان ڈاکوؤں کا نشانہ بن گئے کل یقیناً دس بارہ ڈاکو ڈی پی او عرفان سموں کے ہاتھ لگ جائیں گے ۔ پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان انتقام کی اس جنگ میں عام شہری بھی محفوظ نہیں ۔ جذبات کی اپنی اہمیت ہے اور حقائق کی اپنی ۔ جذبات کی آندھی حقائق کی روشنی پر گرد نہیں ڈال سکتی ۔ اور گرے ہوئے دودھ کو پیالے میں دوبارہ بھرا نہیں جاسکتا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.