سیاسی ورکرز اب سمجھدار ہو گئے ہیں

تحرہر: رفیع صحرائی rafisehraee5586@gmail.com

2

صدا بصحرا
رفیع صحرائی
سیاسی ورکرز اب سمجھ دار ہو گئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیجیے صاحبان! 5 اگست آ پہنچا۔ 5 اگست کو ہی بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر پر شب خون مار کر کشمیریوں کے حقوق غصب کیے تھے۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر پوری قوم یومِ استحصالِ کشمیر منا رہی ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ احتجاج کے لیے کوئی ایسی تاریخ منتخب کرتے ہیں جس سے ملک اور قوم کی تلخ یادیں جڑی ہوتی ہیں۔ اتفاق سے یہی تاریخ یعنی 5 اگست ان کی گرفتاری کی دوسری سال گرہ کا دن بھی ہے۔ عمران خان نے اپنے غم کی دوسری سال گرہ منانے کے لیے ایک ایسے بھرپور، پرجوش اور ولولہ انگیز احتجاج کا اعلان کر دیا جس کا دائرہ بقول ان کے پورے ملک میں پھیل جانا تھا۔ شاید عمران خان 9 مئی کے بعد ہونے والے 26 نومبر کے اسلام آباد احتجاج کے دوران اپنی لیڈرشپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے کہ انہوں نے 5 اگست تک انتہائی عروج پر پہنچنے والے انقلابی احتجاج کی باگ ڈور خود سنبھالنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ کرتے وقت وہ شاید بھول گئے کہ
وہ دن ہوا ہوئے جب پسینہ گلاب تھا
اب “گڈ ٹو سی یو” کی سہولت کاری انہیں حاصل نہیں ہے۔ جیل کے اندر موجوجود ان کے ہمدردوں کو بھی ان سے دور کیا جا چکا ہے اور ان کی حیثیت پنجرے میں قید اس بے بس پنچھی جیسی ہے جو اپنے مالک کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ جیل کے اندر سے پورے ملک میں ہونے والے احتجاج کو کنٹرول اور مانیٹر کرنے کا دعویٰ ہی مضحکہ خیز تھا۔ اس مرتبہ تو اس پھولے ہوئے غبارے میں کسی نے سوئی چبھونے یعنی احتجاج کو موخر کرنے کے لیے بھی رابطہ نہیں کیا۔ سب کو پتا تھا یہ بوسیدہ غبارہ ہوا کا دباؤ برداشت نہیں کر سکے گا اور پھٹ نہ سکا تو اس کے مساموں سے خود ہی ہوا خارج ہو جائے گی۔
بانی سمیت پی ٹی آئی قیادت کو اپنی سکیم کے اس طرح غیرمؤثر اور بے وقعت ہونے کا شاید صحیح ادراک نہ تھا۔ وہ بھول گئے تھے کہ عرصہ دو سال میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ 9 مئی اور 26 نومبر کے احتجاجوں میں پی ٹی آئی ورکرز نے اپنے بانی کی زبانی طور پر دکھائی گئی خیالی جنت کے فریب میں سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ پھر جس طرح اپنے گرفتارشدہ “ہیروز” کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر ان سے اظہارِ لاتعلقی کیا گیا وہ باقی ورکرز کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے کسی احتجاجی ورکر کو اون کیا گیا نہ کسی کو قانونی مدد فراہم کی گئی۔ ان بے چاروں کے لواحقین عدالتوں میں اور ورکرز جیلوں میں رُل گئے۔ عام ورکرز کی بات کیا کریں، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، پارٹی صدر چوہدری پرویز الٰہی، میاں محمود رشید، یاسمین راشد اور سینیٹر اعجاز چوہدری جیسے مرکزی رہنماؤں کے نام بھی بھلا دیئے گئے۔ پی ٹی آئی کے کسی عہدیدار، کسی رہنما، کسی وکیل، کسی ایم این اے، ایم پی اے یا سینیٹر نے جیل میں ان سے ملاقات تک کرنا گوارا نہ کیا۔ ورکرز سب دیکھ رہے ہیں کہ جب مرکزی لیڈرشپ کے ساتھ پارٹی مخلص نہیں ہے اور ان کے ساتھ قربانی کے بکرے جیسا سلوک کیا گیا ہے تو عام ورکرز کس کھیت کی مولی ہیں۔
ورکرز کو تو ظلِ شاہ کی موت بھی یاد ہے۔ اس سچے عاشق نے اپنی جان دے دی مگر کسی ایک پارٹی رہنما نے اس کے جنازے میں بھی شرکت نہ کی۔ اس کے باپ کے ساتھ تعزیت کا رعونت بھرا انداز کون بھول سکتا ہے جب اس کے بیٹے کی تعزیت کے لیے اسے زمان پارک بلوایا گیا اور منہ دوسری طرف کر کے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر حکم دیا گیا کہ ظلِ شاہ کی موت کی ایف آئی آر بانی پی ٹی آئی کی مرضی کے مطابق کٹواؤ۔ باپ کے انکار پر ظلِ شاہ کو ایسے بھلا دیا گیا جیسے کہ اس کا وجود ہی نہ تھا۔
دور کیوں جائیے۔ ابھی حال ہی میں سینٹ، قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈروں سمیت ایک سو سے زائد اہم لوگوں کو 9 مئی میں دس دس سال قید کی سزا ہوئی ہے۔ پارٹی کی طرف سے ان سزاؤں کے خلاف معمولی سے احتجاج کی کال بھی نہیں دی گئی۔
ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ 5 اگست کو پی ٹی آئی کے ورکرز ملک بھر میں تھرتھلی مچا دیں گے ایک دیوانے کا خواب ہی تھا۔
اس ٹھس تحریک میں جان ڈالنے کے لیے علیمہ خان نے بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کی انٹری ڈال کر سنسنی پھیلانے کی کوشش کی مگر اس تجویز کو پذیرائی نہ مل سکی۔ شاہین صہبائی نے تو ان صاحبزادگان کی امریکی ایوانِ نمائندگان کے ہمراہ پشاورایئر پورٹ پر شاہانہ لینڈنگ اور لاکھوں لوگوں کے ہمراہ اسلام آباد پر چڑھائی کا فرضی اور دل فریب نقشہ تک کھینچ ڈالا تھا مگر رانا ثناءاللہ نے جب ان صاحبزادگان کی گرفتاری کا عندیہ ظاہر کیا تو شہزادگان کے نائیکوپ ہی گم ہو گئے جو شاید ان کے پاس کبھی تھے ہی نہیں۔ نائیکوپ بیرونِ ملک پاکستانیوں خصوصاً دوہری شہریت کے حامل دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو نادرا کی طرف سے جاری کیا گیا شناختی کارڈ ہوتا ہے جو ان کی پاکستانی شہریت کا ثبوت ہوتا ہے۔ اگر خان کے بیٹوں کے پاس نائیکوپ ہوتے تو انہیں پاکستان آنے کے لیے ویزہ کی ضرورت نہ پڑتی۔ حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ اگر انہوں نے آنا ہے تو ویزہ کے لیے درخواست دیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صاحبزادوں کے پاس نائیکوپ ہوتا تو حکومت ویزہ کی درخواست کے لیے انہیں کبھی نہ کہتی۔ ویسے بھی ڈپلیکیٹ نائیکوپ کا حصول مشکل نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کے اندر مثنیٰ نائیکوپ جاری کر دیا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے عمران خان کے صاحبزادوں نے اپنی پھوپھی علیمہ خان کو نائیکوپ گمشدگی کا چکر دے دیا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.