بھیک نہیں روزگار

تحریر: رفیع صحرائی rafisehraee5586@gmail.com

2

صدا بصحرا
رفیع صحرائی
بھیک نہیں روزگار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے حکومت نے موجودہ مالی سال 26-2025 میں 21 فیصد اضافہ کر کے اس مقصد کے لیے 716 ارب روپے مختص کر دیئے ہیں۔ وزیرِ خزانہ محمد اورنگ زیب نے بتایا ہے کہ حکومت اس پروگرام کے دائرہ کار کو بڑھانا چاہتی ہے۔ کفالت پروگرام سے مستفید ہونے والوں کی تعداد کو 93 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ افراد (خاندان) تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تعلیمی وظائف کو بھی مزید وسعت دی جائے گی تاکہ ایک کروڑ بیس لاکھ بچوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔
یاد رہے کہ مالی سال 22-2021 میں BISP کے لیے 250 ارب روپے رکھے گئے تھے جنہیں 23-2022 میں 60 فیصد اضافہ کر کے 400 ارب روپے کر دیا گیا تھا۔ اس سے اگلے سال یہ بجٹ 471.23 ارب روپے جبکہ گزشتہ سال یہ رقم 598.71 ارب روپے مختص کی گئی تھی جسے اب مزید بڑھا کر 716 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
ملک کی کثیر آبادی کو سرکاری طور پر ہر ماہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بھیک دے کر ایک چوتھائی آبادی کی پیشانیاں داغ دار کی جا رہی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری حکومت بے نظیر انکم سپورٹ کے مستحقین کے لیے اسی فنڈ سے باعزت روزگار کے مواقع فراہم کر دے۔ ان لوگوں کو ہنرمند بنانے کے لیے عملی اقدام کرے تاکہ یہ لوگ ملک پر بوجھ بننے کی بجائے مفید شہری بن سکیں ورنہ ان لوگوں کی طرح ان کی اولادیں بھی ”سرکاری امداد“ کی منتظر ہی رہا کریں گی اور ملکی معیشت ناقابلِ برداشت بوجھ کے نیچے دبتی چلی جائے گی۔
بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ میں ایک بل آیا کہ کیوں نہ بنگلہ دیش میں بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسا پروگرام شروع کیا جائے۔ بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں 80 فیصد ممبران نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور تجویز دی کہ ایسا روزگار کا کوئی پروگرام شروع کیا جائے کہ قوم بجائے بھکاریوں کی قطاروں میں کھڑے ہونے کے باعزت روزگار کا حصول اپنائے۔
انہوں نے گارمنٹس کو متعارف کرایا آج بنگلہ دیش کی کامیابی کا یہ حال ہے کہ بنگلہ دیش یورپ کو گارمنٹس کی برآمدات میں چائنہ کے برابر جارہا ہے جبکہ پاکستان میں ہم نے بینظیر پروگرام میں عوام کو خیرات لینے والوں کی قطاروں میں اس طرح کھڑا کیا کہ روز بروز قطاریں لمبی ہوتی جارہی ہیں۔
آج بنگلہ دیش نے اپنی خواتین کو باعزت روزگار دے کر ملکی معیشت کو بھی ترقی دی اور انہیں معاشرے کا مفید شہری بھی بنایا جبکہ ہم نے اس کے برعکس قوم کی عورتوں اور مردوں کو بھکاری بنا دیا۔
2008ء میں شروع ہونے والے BISP پروگرام سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت تک وطنِ عزیز میں ایک کروڑ گھرانوں کو حکومت کی جانب سے عملاً بھکاری بنا دیا گیا ہے۔ ہر گھر میں اوسطاً پانچ افراد ہوں تو گویا سرکاری بھکاریوں کی تعداد پورے پانچ کروڑ ہے۔ دوسری طرف اگر دیکھا جاٸے تو بے نظیر انکم سپورٹ کی مد میں دی جانے والی رقم فی خاندان چار ہزار پانچ سو (4500) روپے فی مہینہ بنتی ہے جو اس مہنگائی کے دور میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ اگر ان 716ارب روپوں سے ایک ارب روپے فی کارخانہ یا مِل کے حساب سے 716 کارخانے اور ملیں قائم کر دی جاتیں تو ملک سے بے روزگاری میں بڑی کمی واقع ہوتی۔ ہر سال اسی شرح سے اس مد میں کارخانے اور صنعتیں قائم کرتے جائیں تو چند سالوں میں پورے ملک میں انڈسٹریز کا جال بچھ جاٸے گا۔ بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا۔ مصنوعات کی ایکسپورٹ سے بھاری زرِ مبادلہ حاصل ہو گا اور ملک میں خوش حالی آ جاٸے گی۔
اس کے علاوہ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں گھریلو دستکاریوں کو فروغ دیا جائے۔ ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں ووکیشنل انسٹی ٹیوٹس کا قیام عمل میں لا کر نوجوان مرد و خواتین کو کسی نہ کسی ہنر سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ نوجوان لڑکیوں کو سلائی کورس مکمل کرنے کی صورت میں انعام کے طور پر سلائی مشینیں دی جائیں جن کی مدد سے وہ برسرِ روزگار ہو سکیں اس طرح ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت کو بھی ترقی دی جا سکتی ہے۔ گارمنٹس کو ایکسپورٹ کر کے قیمتی زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ دیہات اور قصبوں میں پلاسٹک فیکٹریاں لگا کر پلاسٹک کے برتن اور استعمال کی دیگر اشیاء بنائی جا سکتی ہیں۔ مرغ بانی اور ماہی پروری کو باقاعدہ ایک مہم چلا کر فروغ دیا جا سکتا ہے۔ پلاسٹک کے جوتے بنانے والی فیکٹریاں لگ سکتی ہیں۔ پھولوں کی کاشت کاری کا کام بہت آسانی سے شروع کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کو آئی ٹی ایکسپرٹ بنانے کے لیے سرکاری سطح پر آئی ٹی ٹریننگ سنٹر بنائے جائیں۔ ان سب کاموں کے لیے ضرورت صرف خلوصِ نیت کی ہے۔ ہمارا ملک دنیا میں واحد ایسا ملک ہے جس کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر بدقسمتی سے ان کی اکثریت بے روزگار ہے۔ اس کی وجہ روزگار کے زیادہ مواقع نہ ہونا اور سرکاری نوکری کو فوقیت دینا ہے۔ گھریلو صنعتوں کو فروغ دے کر اور ہنرمندی کے مواقع فراہم کر کے کئی فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً بے روزگاری پر قابو، شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان میں کمی، ایکسپورٹ میں اضافہ، زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، معیشت میں استحکام اور ملک پر بوجھ بننے والے افراد میں کمی۔ سب سے بڑھ کر باوقار قوم کے سٹیٹس کا حصول بھی ممکن ہو جاٸے گا۔ ضرورت صرف مافیاز سے ٹکرانے والے حکمران کی ہے۔ جنہوں نے ہر سیاستدان اورسیاسی جماعت کوکثیر فنڈنگ کے ذریعے اپنے شکنجے میں جکڑرکھا ہے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہر لحاظ سے ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ اسی طرح اب پنجاب میں راشن کارڈ سکیم متعارف کروائی جا رہی ہے۔ کروڑوں مستحق خاندانوں کو گھر بیٹھے ہر ماہ راشن یا اس کی رقم ملا کرے گی۔ بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی بجائے اگر یہی رقم انڈسٹریز قائم کرنے اور

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.