ایک اور نورا کشتی

تحریر: رفیع صحرائی rafisehraee5586@gmail.com

2

صدا بصحرا
رفیع صحرائی
ایک اور نورا کُشتی
۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں
پیپلز پارٹی کے جیالوں کی حد تک افضل خان کا درج بالا شعر صادق آتا ہے۔ وفاقی بجٹ پیش ہوا تو پیپلزپارٹی کے سنیئر رہنما چوہدری منظور اِحمد نے دھواں دھار پریس کانفرنس کر کے وفاقی حکومت کو خوب رگیدا۔ ان کی مخالفت کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں جو دس فیصد اور پنشنرز کی پنشن میں سات فیصد اضافہ کیا ہے وہ انتہائی کم ہے۔ تنخواہ اور پنشن میں اضافہ کم از کم پچاس فیصد کیا جائے ورنہ پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ پاس نہیں ہونے دے گی۔ ابھی اس پریس کانفرنس کی بازگشت جاری تھی کہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حسن مرتضیٰ نے بھی اسی موقف کو دہراتے ہوئے ایک اور پریس کانفرنس کر ڈالی۔ سرکاری ملازمین کو پیپلزپارٹی کے موقف سے حوصلہ ملا اور انہیں یہ پارٹی نجات دہندہ کے روپ میں نظر آنے لگی مگر 13 جولائی کو پیپلزپارٹی نے جب اپنے صوبہ سندھ میں سالانہ نجٹ پیش کیا تو سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 12 فیصد اور پنشن میں 8 فیصد اضافہ کر کے خود کو ایکسپوز کر دیا کہ یہ پارٹی اندر سے مسلم لیگ ن کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ ملازمین اور پنشنرز سے سے ہمدردی کا جھوٹا ڈراما رچا کر اس نے ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ورنہ حقیقت میں یہ دونوں پارٹیاں ملازمین کُش پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے اپنی پوسٹ بجٹ تقریر میں فرمایا کہ اگر ان کے تین مطالبات یعنی ان کے صوبے کے حصے کی رقم میں اضافہ، حیدرآباد تا کراچی موٹروے کی رقم میں اضافہ اور سولر پینلز پر 18 فیصد عائد ڈیوٹی ختم نہ کی گئی تو ان کی پارٹی وفاقی بجٹ پاس نہیں ہونے دے گی۔ایسے ہومیوپیتھک مطالبات اور شرائط پر حکومت نے بھی یقیناً سکھ کا سانس لیا ہو گا لیکن دو ہی روز میں سرکاری ملازمین کو نظرانداز کر کے پیپلزپارٹی نے بتا دیا ہے کہ وہ گزشتہ تین سال سے حکومت کے ساتھ نورا کشتی کے تسلسل پر پوری ایمانداری سے عمل پیرا ہے۔
واقفانِ حال جانتے ہیں کہ میثاقِ جمہوریت (2007) کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان متعدد نورا کشتیاں ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں یہ نورا کشتیاں مذکورہ دونوں پارٹیوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئیں وہیں پر ملک کے لیے بھی یہ نیک شگون لے کر آئیں اور عوام بھی سکون سے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو یہ میثاقِ جمہوریت ہی کا ثمر تھا کہ اس نے انتقامی سیاست کو دفن کر دیا اور ماضی کی سیاہ رات کو بھلا کر نئے عزم سے آغازِ سحر کی بنیاد رکھ دی۔ 2008 سے 2013 کا دور سیاسی لحاظ سے سنہری دور تھا۔ پورے پانچ سال میں کوئی ایک سیاسی مقدمہ بنا نہ کوئی سیاسی قیدی جیل میں گیا۔ گو پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ اس کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کو بھی جاتا ہے کہ میاں نواز شریف پانچ سال تک فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سنتے رہے مگر انہوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ہر قسم کے ایڈونچر سے اجتناب کیا۔ دراصل آصف زرداری اور نواز شریف منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سوچ سمجھ کر سیاست کی بساط پر چالیں چلتے ہیں۔ دونوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ آپس کی لڑائی نے ہمیشہ ان دونوں (پارٹیوں) کا نقصان کیا ہے اور ان کی چپقلش سے ہر دفعہ تیسری قوت کو موقع ملا ہے۔ تاہم اپنے ورکرز کو مطمئن رکھنے کے لیے اختلاف اور مخالفت کے متعدد ڈرامے بھی رچائے جاتے رہے ہیں۔ 2013 میں نواز شریف برسرِ اقتدار آئے تو آصف زرداری نے بھی اپنا طے شدہ کردار بخوبی نبھایا جو تیسری قوت کو پسند نہیں آیا۔ ملک سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب چل پڑا تھا۔ دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ نے صوبوں کو زیادہ بااختیار بنا دیا تھا۔ طالع آزماؤں کو اپنا کردار محدود ہوتے ہوتے ختم ہونے کی فکر پڑ گئی تھی چنانچہ عمران خان کی صورت میں نیا سیاسی مہرہ آگے بڑھایا گیا اور ملک کو تیزی سے تنزلی کے راستے کی طرف گامزن کر دیا گیا۔ وہ تو عمران خان کی سیمابی طبیعت نے انہیں نچلا نہ بیٹھنے دیا اور وہ اپنے لانے والوں سے ہی ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں آج کل پابندِ سلاسل ہیں ورنہ تو 1973 کا آئین ردی کی ٹوکری میں پھینک کر 1935 تک کی حکومت کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب کروا کر اپنے سیاسی مستقبل کو بچا لیا۔ گو دونوں پارٹیوں نے ہی بہت بڑا رسک لیا تھا۔ معیشت کی راہ میں بچھی ہوئی بارودی سرنگوں کا انہیں اندازہ تو تھا مگر سنگینی اور خطرناکی کا پتا نہ تھا۔
انتخابات 2024 کی انتخابی مہم کے دوران لڑی گئی نورا کشتی میں بلاول بھٹو زرداری نے کامیاب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف سے ہٹا کر میاں نواز شریف کی طرف کیے رکھا۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ مرکز میں زیادہ سیٹیں لینے والی پارٹی کو وزارتِ عظمیٰ اور دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پارٹی کو ملک کی صدارت ملے گی۔ یہ طے تھا کہ حکومت میں دونوں پارٹیاں اتحادی ہوں گی۔ جناب بلاول زرداری کی انتخابی مہم سیاسی مخالفت سے زیادہ ذاتی دشمنی لگ رہی تھی۔ انہوں نے نواز شریف پر ذاتی حملے بھی شروع کر رکھے تھے۔ ہم نے تب بھی عرض کیا تھا کہ یہ اختلاف صرف 8 فروری 2024 کی شام تک ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ سال 2023 میں بھی انہی دنوں میں بلاول بھٹو وزیرِ خارجہ ہوتے ہوئے بھی پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف ہو گئے تھے اور انہوں نے میاں شہباز شریف

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.