عوام کی زندگی آسان بنانے کے دعوے تو ہر حکومت کرتی ہے، لیکن حقیقت میں حالات دن بہ دن بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہے، بے روزگاری آسمان سے باتیں کر رہی ہے، اور عام آدمی کی زندگی ایک مسلسل اذیت بن چکی ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں آج بھی کروڑوں لوگ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ صاف پانی تک رسائی ایک مسئلہ ہے، صحت کی سہولتیں کمزور اور ناکافی ہیں، تعلیم عام ضرور ہے مگر معیاری نہیں، اور روزگار؟ وہ تو جیسے قسمت کا کھیل بن چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کب تک؟ کب تک عوام دھوکے، وعدے اور خواب بیچنے والوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے؟ کب تک ایک غریب ماں دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتی رہے گی؟ کب تک ایک باپ اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے اپنا سامان بیچتا رہے گا؟ کب تک نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے روزگار کی تلاش میں دروازے کھٹکھٹاتے رہیں گے؟
عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنا محض ایک سیاسی نعرہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ہر حکومت کی ترجیحِ اول ہونی چاہیے۔ ریاست کو صرف بلند عمارتیں اور میٹرو ٹرینیں نہیں، بلکہ زندہ انسانوں کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو صرف ریلیف پیکجز نہیں، بلکہ مستقل سہولیات چاہئیں جن میں تعلیم، صحت، روزگار، سستی رہائش، اور صاف پانی سرفہرست ہیں۔
ترقی اس وقت حقیقی کہلائے گی جب ملک کا غریب بھی خود کو اس نظام کا حصہ سمجھے، جب ایک کسان کو اس کی فصل کا صحیح معاوضہ ملے، جب ایک استاد عزت کے ساتھ زندگی گزارے، جب مزدور کو دن کے اختتام پر سکون کی نیند نصیب ہو۔
آج ہمیں صرف نعرے نہیں، عمل چاہیے۔ ہمیں صرف ترقیاتی منصوبے نہیں، عوامی منصوبے درکار ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم معاشی پالیسیاں عوامی فلاح کے محور پر ترتیب دیں، ورنہ صرف اشرافیہ کی ترقی کا جشن مناتے رہیں گے، اور کروڑوں پاکستانی غربت، بھوک اور مایوسی کے اندھیروں میں گم رہیں گے۔