دو قومی نظریے کا عکاس بجٹ

تحریر: رفیع صحرائی rafisehraee5586@gmail.com....

4

صدا بصحرا
رفیع صحرائی
دو قومی نظریے کا عکاس بجٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی حکومت نے توقعات کے عین مطابق سالانہ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے ساتھ ہاتھ کر دیا ہے۔ سرکاری ملازمین کے ساتھ تمام وعدوں کو پسِ پشت ڈال کر وزیرِ اعظم شہباز شریف وفاقی کابینہ سے بجٹ منظوری کے وقت کابینہ اجلاس سے خطاب کے دوران مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اچھے نہیں لگے۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ اشرافیہ کو سوچنا ہو گا کہ ملازمین نے ملکی معیشت کو کس قدر سہارا دیا ہے اور سرکاری ملازمین کا اس میں کتنا حصہ ہے تو اس وقت ان کے چہرے پر سرکاری ملازمین کے ساتھ ہمدردی کا ایسا نقاب تھا جس کے پیچھے سے ان کا سرمایہ دارانہ چہرہ صاف نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے جب یہ کہا کہ تنخواہ دار طبقے نے 400 ارب ٹیکس دیا تو ان کا مقصد سرکاری ملازمین سے ہمدردی یا ان کی تحسین کرنا نہیں تھا بلکہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنا تھا کہ آئندہ بھی قربانی کے لیے وہ تیار رہیں اگر انہوں نے پچھلے سال 400 ارب روپے ٹیکس دیا تھا تو اس مرتبہ انہیں قریباً 582 ارب روپے ٹیکس دینا ہو گا۔ دو قومی نظریہ کو فروغ تو وفاقی کابینہ نے بھی بہت خوبی سے دیا جب اپنی تنخواہ میں 145 فیصد اضافہ کرنے کے بعد اس نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں صرف 6 فیصد اضافے کی منظوری دی۔ بتایا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مجوزہ 6 فیصد اضافہ مسترد کرتے ہوئے 10 فیصد اضافے کی منظوری دی۔ اسی طرح پنشنرز کی پنشن میں مجوزہ 7 فیصد اضافے کو انہوں نے حاتم طائی کی سخاوت سے تعبیر کرتے ہوئے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ سب کچھ ملی بھگت سے کیا گیا ہے۔ وزیرِ اعظم نے سرکاری ملازمین کو موت دکھا کر بخار پر راضی کرنے کی کوشش کی ہے جو سرکاری ملازمین کو قابلِ قبول نہیں ہے۔ خصوصاً اس صورت میں یہ اضافہ قبول کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے جبکہ حکومتی نمائندوں نے بیک جنبشِ قلم اپنی تنخواہوں میں ہوش ربا اضافہ کر لیا ہے۔ یہ ایسی بے حسی ہے جس نے سرکاری ملازمین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ملازمین کو اس بات پر بھی شدید دکھ ہے کہ رانا ثناءاللہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے سرکاری ملازمین کے نمائندگان سے بہت سے وعدے کر رکھے تھے اور ان پر عمل کروانے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن اصل میں حکومت کی طرف سے ملازمین کو لالی پاپ دے کر اس لیے بہلایا گیا تھا کہ حکومت ملازمین کی طرف سے کسی متوقع احتجاج کو روکنا چاہتی تھی۔ سرکاری ملازمین کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ کم از کم ایک ایڈہاک ریلیف فنڈ ان کی تنخواہ میں ضم کیا جائے گا۔ ہاؤس رینٹ الاؤنس جو کہ موجودہ دور میں کسی مذاق سے کم نہیں اس پر نظرِ ثانی کی جائے گی۔ میڈیکل الاؤنس جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے اس میں سوفیصد اضافے کا عندیہ دیا گیا تھا مگر بجٹ میں ان میں سے کوئی ایک مطالبہ اور وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اس پر طرفہ یہ کہ بیوگان کی پنشن کی مدت تاحیات سے کم کر کے دس سال کر دی گئی۔ یعنی بڑھاپے کے عالم میں پنشن کی وجہ سے بزرگوں کی جو کچھ عزت یا گزارے کی صورت تھی اس سے انہیں محروم کر دیا گیا۔ ذرا تصور کریں کہ ایک ستر سالہ بڑھیا جس کا واحد سہارا پنشن ہو گی جب وہ پنشن سے محروم ہو گی تو اس کی کیا حالت ہو گی؟۔ اس عمر میں اسے بھیک مانگنے پر مجبور کرنے والے وہ لوگ ہیں جو خود سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے۔
پنشنرز کے ساتھ تو صحیح معنوں میں زیادتی کی انتہا کی گئی ہے۔ پنشن میں صرف سات فیصد اضافہ، وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ لوگوں کی قوتِ خرید میں 45 فیصد تک کمی ہو چکی ہے کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے۔ان کی پنشن میں کم از کم 50 فیصد اضافہ ہونا چاہیے تھا۔
ابھی چند دن پہلے ہی تو صدرِ مملکت نے شہنشاہی بل کی منظوری دی ہے جس میں ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینیٹرز کی تنخواہوں میں 145 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ کروڑوں اور اربوں روپے خرچ کرکے اسمبلیوں میں بیٹھنے والے یہ “عوامی نمائندے” کیا واقعی اتنے غریب ہیں کہ ان کی تنخواہوں میں یکمشت اتنا اضافہ کر دیا جاتا یا حکومت کے ہاتھ قارون کا کوئی خزانہ لگ گیا ہے جسے اندھے کی ریوڑیاں بنا کر بانٹا گیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر آئی ایم ایف کو بھی مراعات یافتہ طبقے پر نوازشات کی موسلادھار بارش پر کوئی اعتراض نہیں۔ ایک اور نوازش اسپیکر اور چیئرمین سینٹ پر بھی کی گئی ہے۔ ان کی تنخواہوں میں 600 فیصد اضافہ کر کے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری گئی ہے۔ حکومتی رویے سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ مراعات یافتہ طبقے کو برہمن جبکہ سرکاری ملازمین کو شودر سمجھتی ہے۔ یہ دوقومی نظریہ اشرافیہ اور عوام کے درمیان خلیج کو گہرا اور وسیع کر رہا ہے۔ جو نفرتوں کو جنم دے رہا ہے۔ عوام اور سرکاری ملازمین کا اعتماد سسٹم سے مکمل طور پر اٹھ چکا ہے۔ اب سرکاری ملازمین کا مسلسل احتجاج شروع ہو جائے گا۔ حکومت کی طرف سے ان پر ڈنڈے برسیں گے۔ اگر احتجاج میں زیادہ شدت ہو گی تو جھوٹے وعدوں سے انہیں بہلانے کی کوشش کی جائے گی۔
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ اگر حکومت اپنی ہی کمیٹیوں کو دھوکہ دہی کے لیے استعمال کرے گی۔ سرکاری ملازمین کے ساتھ جھوٹے وعدے اور معاہدے کیے جائیں گے تو اس حکومت کی کیا کریڈیبلٹی رہ جاتی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.