پینشنرز: خاموش خدمت گزار، نظرانداز شہری

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

7

حالیہ وفاقی بجٹ میں جہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بظاہر 10 فیصد اضافہ کیا گیا وہاں 30 فیصد ڈسپیئرٹی الاؤنس اور مخصوص ٹیکس چھوٹ کو ملا کر عملی طور پر بعض ملازمین کو 40 سے 45 فیصد تک کا مالی فائدہ حاصل ہوا۔ اس تنخواہ میں اضافہ ان کے لیے خوشی کی نوید لایا، خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں مہنگائی کے جن نے ہر گھر کا بجٹ تباہ کر رکھا ہے۔ مگر اسی بجٹ میں ایک ایسا طبقہ بھی تھا جسے سال در سال صرف ایک عددی اضافہ دے کر تسلی دی جاتی ہے پینشنرز۔

پینشنرز وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال، اپنا علم، محنت، وقت، اور توانائی اس ملک کی خدمت میں صرف کی۔ کسی نے بچوں کو الف سے انار تک سکھایا، کسی نے دفتر کے پرانے ریکارڈ میں ترتیب پیدا کی، کسی نے عدالت میں قلم تھاما، اور کسی نے اسپتال میں جانیں بچائیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ درحقیقت ریاست سے ایک وفادار سفر کا اختتام ہوتی ہے۔ مگر جب وہ عمر کے اس موڑ پر پہنچتے ہیں جہاں وہ جسمانی، ذہنی اور مالی طور پر سب سے زیادہ سہارا چاہتے ہیں، تو ریاست انہیں سات فیصد کے اضافے سے نواز کر خاموش کرا دیتی ہے۔

یہ کیسا انصاف ہے
جب موجودہ ملازمین کو ڈسپیئرٹی الاؤنس، کنوینس، میڈیکل، اور ٹیکس چھوٹ جیسے کئی محاذوں پر ریلیف دیا جاتا ہے، تو کیا پینشنرز کو زندہ رہنے کا بھی مکمل حق حاصل نہیں؟ کیا انہیں اس لیے کم دیا جاتا ہے کہ وہ سڑکوں پر آ کر دھرنا نہیں دیتے ان کے پاس کوئی یونین نہیں، کوئی میڈیا کا سپورٹ سسٹم نہیں، نہ وہ ہڑتال کی کال دیتے ہیں۔ وہ صرف دل تھام کر بجٹ کی خبریں سنتے ہیں، اور پھر دوائیں، بل اور بچوں کے سوالات کے درمیان خود کو قائل کرتے ہیں کہ “چلو، سات فیصد بھی مل گیا، شکر ہے!”

مگر اس شکر گزاری کے پیچھے ایک تلخ حقیقت چھپی ہے بے بسی، ناقدری اور تنہائی۔

پینشنرز کے روزمرہ اخراجات ایک محدود رقم سے بڑھ چکے ہیں۔ مہنگے اسپتال، دوائیں، بجلی، گیس، سبزیاں، اور وہ بچے جن کی تعلیم یا شادی اب بھی ان پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں سات فیصد کا اضافہ کیا حیثیت رکھتا ہے یہ نہ تو ایک ماہ کی دوائی کا خرچ پورا کرتا ہے اور نہ ہی اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں کا مقابلہ۔ مگر ریاست مطمئن ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پینشن کوئی صدقہ یا خیرات نہیں، بلکہ ایک واجب الادا حق ہے۔ یہ اس خدمت کا معاوضہ ہے جو برسوں کی محنت سے ادا کی گئی۔ اگر حکومت معاشی بحران کا رونا رو کر پینشنرز کو کم اضافہ دیتی ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ بحران تنخواہ دار طبقے کے لیے ختم کیسے ہو گیا اگر ایک طبقے کو 45 فیصد تک کا ریلیف مل سکتا ہے تو دوسرے کو کیوں نہیں کیا پینشنر پاکستانی شہری نہیں کیا وہ انسانی ضروریات سے آزاد ہو چکے ہیں.

ریاست کو سمجھنا ہو گا کہ وہ صرف ان لوگوں کی نہیں جو آج خدمات سرانجام دے رہے ہیں بلکہ ان کی بھی ہے جنہوں نے ماضی میں اپنے حصے کی مشعل جلائی اور اب اپنے گھروں میں کسی سرکاری نوٹیفکیشن کے منتظر بیٹھے ہیں۔ بجٹ صرف حساب کتاب کا کاغذ نہیں ہوتا یہ ایک پیغام ہوتا ہے ترجیحات کا، انسان دوستی کا، اور انصاف کا۔

اگر پینشنرز کے ساتھ مسلسل یہ سلوک جاری رہا تو یہ احساس محرومی ایک دن صرف شکایت نہیں بلکہ احتجاج کی صورت اختیار کرے گا۔ اور وہ دن، شاید زیادہ دور نہیں۔

ریاست کو اس سے پہلے جاگ جانا چاہیے کہ یہ وہی پینشنرز ہیں جنہوں نے آج کے افسر پیدا کیے، آج کے ادارے چلائے، آج کی دیواریں کھڑی کیں۔ اب یہ وقت ہے کہ ان دیواروں کے سائے میں بیٹھے ان بزرگوں کو عزت، وقار اور مالی تحفظ فراہم کیا جائے۔

ورنہ کل جب آج کے افسر پینشنر بنیں گے تو وہ بھی اپنے حق کے لیے یہی سوال اٹھائیں گے
“کیا ہمیں بھی صرف سات فیصد کے لائق سمجھا جائے گا؟”

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.