شعیب بن عزیز کی شخصیت بے شمار محاسن کا مجموعہ اور اوصاف حمیدہ کا مجموعہ ہے ۔ ان کی شخصیت کے اندر کس جہت کے دروازے پر دستک دوں ان کی صلاحیتوں کا اعتراف بڑے بڑے لوگوں نے کیا ہے ، ان کا تعلق بڑے بڑے لوگوں سے رہا ہے اور یہ ان کے پیشہ ورانہ فرائض منصبی کے تقاضے تھے جو انہوں نے بڑی دیانت داری سے پورے کیئے ، تعلقات عامہ میں آپ کو جو مہارت تامہ حاصل ھے وہ باید و شاید ہی کسی اور کو حاصل ہو ، خبر و نظر کی دنیا کے تمام شعبوں سے تعلق ء خاطر رہا ہے ، بڑے لوگ اور عظیم لوگوں میں ارض و سما کا فرق ہوتا ھے ، بڑے لوگوں کی دماغ سے عزت کی جاتی ہے اور عظیم لوگوں کی دل سے کی جاتی ہے ، شعیب بن عزیز کا شمار ہمیشہ عظیم انسانوں میں ہو گا ، میں نے ہمیشہ آپ کے انکسار میں افتخار تلاش کیا ہے ،
خاکساروں سے خاکساری تھی
سر بلندوں سے خاکسار نہ تھا
شعیب بن عزیز اردو ادب کا ایک ایسا نام ہے جس نے شاعری، نثر، تحقیق اور ترجمہ کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف تخلیقی سطح پر گراں قدر کام کیا بلکہ علمی اور فکری حلقوں میں بھی اپنی بصیرت کا لوہا منوایا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
شعیب بن عزیز کا تعلق پنجاب، پاکستان سے ہے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سول سروس میں شمولیت اختیار کی۔ ادب سے فطری لگاؤ انہیں شروع ہی سے تھا، اور اسی لگن نے انہیں اردو ادب کے منظرنامے پر ایک درخشاں ستارہ بنا دیا۔
شاعری
شعیب بن عزیز کو شاعری میں خاص طور پر غزل اور نعت کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں روایت اور جدت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ان کے اشعار میں سادگی، روانی اور فکری گہرائی نمایاں ہے:
“یہ کس مقام پہ لے آئی زندگی ہم کو
تمام عمر کی محنت پچھاڑ دی ہم نے”
ان کی نعتیہ شاعری نہایت مؤثر، عجز و انکسار سے بھرپور اور روحانی تاثیر کی حامل ہے۔ شعیب بن عزیز نے نعت کو صرف عقیدت کی سطح پر نہیں برتا بلکہ اسے ایک فکری تجربہ بھی بنایا۔
نثر و تحقیق
شعیب بن عزیز کا شمار اردو کے ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے نثر میں بھی نمایاں کام کیا۔ ان کے مضامین، تحقیقی و تنقیدی تحریریں اور تراجم ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کئی بین الاقوامی تخلیقات کا اردو ترجمہ کیا، جس سے اردو قارئین کو عالمی ادب سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔
بطور دانشور و منتظم
بطور بیوروکریٹ، شعیب بن عزیز نے ادب اور ثقافت کی ترویج کے لیے کئی عملی اقدامات کیئے۔ وہ پنجاب حکومت کے مختلف علمی و ثقافتی اداروں سے وابستہ رہے، جہاں انہوں نے اردو ادب اور قومی زبان کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کیا۔
مجموعی جائزہ
شعیب بن عزیز کی شخصیت ایک متوازن، سنجیدہ اور باوقار ادبی پیکر کی آئینہ دار ہے۔ وہ روایت سے جُڑے ہوئے ہیں مگر ان کی سوچ عصری ہے۔ ان کی تخلیقات میں قومی شناخت، محبت، انسانیت اور علم دوستی کے عناصر نمایاں ہیں۔
شعیب بن عزیز اردو ادب کی وہ آواز ہیں جو خلوص، تہذیب، علم اور وجدان کا امتزاج لیئے ہوئے ہے۔ ان کی ادبی خدمات آنے والی نسلوں کے لیئے مشعلِ راہ ہیں۔ بلاشبہ وہ اردو ادب کا قابلِ فخر سرمایہ ہیں۔ معروف اینکر ھارون الرشید عباسی ، حسیب پاشا ، انوار قمر اور راقم شعیب بن عزیز کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں ۔ اور بیک زبان پکار اٹھتے ہیں ،
دیکھ تجھے کتنا چاہا ہے کبھی غور تو کر
ایسے تو ہم کبھی اپنے بھی طلبگار نہ تھے
سی ٹی این فورم کے چیئرمین محترم المقام مسعود علی خان کے حسن انتخاب کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ شعیب بن عزیز کی سی ٹی این فورم میں ادبی سرگرمیوں کی صدائے بازگشت سنی جا رہی ہے ، محترم توقیر احمد شریفی کی ادبی خدمات کے اعتراف کے ساتھ ساتھ شعیب بن عزیز کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ،
ان کا مشہور زمانہ اور زبان زدعام شعر
پھر اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔