نمرود آج بھی زندہ ہے

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

5

عیدالاضحیٰ گزر گئی۔ گلیوں میں لہو دھلا، صحنوں میں گوشت بانٹا گیا، تصویریں سجی، فریزر بھرے، اور زندگی معمول پر آ گئی۔ لیکن بہت سے دلوں میں ایک سوال رہ گیا کیا قربانی ہو گئی یا صرف جانور ذبح ہوئے.

قربانی کا اصل مفہوم اب بھی بہت سے ذہنوں سے اوجھل ہے۔ خاص طور پر اُن نوجوان ذہنوں کے لیے جن کے سامنے دنیا کی کشش نت نئے رنگوں میں جھلک رہی ہے۔ ان کے لیے قربانی صرف رسم نہیں، ایک یاد دہانی ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ پانے کی دوڑ میں خود کو کھو دینا اصل نقصان ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں دکھایا کہ سب کچھ رب کے حوالے کر دینا کیسا ہوتا ہے حتیٰ کہ بیٹے کو بھی۔

مگر یہ سبق آج کے نظام کو قبول نہیں۔ نمرود کا چہرہ اب بادشاہوں جیسا نہیں، بلکہ نظام جیسا ہو گیا ہےسرمایہ داری کا نظام، صارفیت کا جال، تشہیر کا دھندہ، اور جھوٹی آزادیوں کا شور۔ یہ سب ہمیں زیادہ مانگنا سکھاتے ہیں، کم پر قانع ہونا جرم بنا دیتے ہیں اور سچ بولنے والوں کو بےوقوف یا خطرہ قرار دیتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بت توڑے تھے تو صرف پتھر نہیں ٹوٹے تھے، ایک سوچ ٹوٹی تھی وہ سوچ جو انسان کو خدا کے سوا ہر طاقت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتی ہے۔ آج بھی ایسے نوجوان موجود ہیں جو سچائی، سادگی، اور قربانی کے جذبے کو اپنانا چاہتے ہیں، مگر یہ دنیا انہیں قبول نہیں کرتی۔ وہ بازار کی دوڑ میں پیچھے رہنے والے کہلاتے ہیں، وہ معاشی طور پر غیر اہم سمجھے جاتے ہیں۔

قربانی صرف گوشت بانٹنے کا نام نہیں، بلکہ اپنی خواہشوں، اپنی ضد، اپنی برتری کے احساس کو ذبح کرنے کا نام ہے۔ اصل نمرود وہی ہے جو ہمیں یہ سب نہیں کرنے دیتا، اور آج وہ کہیں زیادہ مہذب، چمکتا دمکتا اور خطرناک ہو چکا ہے۔

عید تو گزر گئی، مگر قربانی کا پیغام باقی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہم نے کیا ذبح کیا، سوال یہ ہے کہ ہم نے کیا بچا لیا؟ کہیں ہم نے اندر بیٹھے نمرود کو تو سلامت نہیں رکھا؟ کہیں ہم نے اپنی انا، حرص، تعصب، اور خود فریبی کو قربان کیے بغیر جانور ذبح کر کے خود کو مطمئن تو نہیں کر لیا؟

نمرود آج بھی زندہ ہے۔ اور ابراہیمی مزاج آج بھی ہر دور کا سب سے بڑا انکار ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج کی آگ گلزار بننے کے لیے ایک نئی نسیمِ سحر کی منتظر ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.