اگر کبھی کسی ملک کی اصل تصویر دیکھنی ہو تو اس کے تعلیمی اداروں کا رخ کیجیے — جہاں علم بانٹنے والے چہروں پر فخر کے بجائے فکروں کی جھریاں بسی ہوتی ہیں۔ پاکستان کا استاد آج ایک ایسی شخصیت ہے جو نہ صرف درس و تدریس کے محاذ پر سرگرم ہے بلکہ زندگی کے ہر میدان میں آزمائشوں کا سامنا کر رہا ہے۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ ایک طرف استاد کو قوم کا معمار کہا جاتا ہے، مگر دوسری طرف اُسے معاشرتی، معاشی اور نفسیاتی دباؤ کے ایسے شکنجے میں جکڑ دیا گیا ہے جس سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ ایک پاکستانی استاد کی روزمرہ زندگی میں فقط نصاب کی پیچیدگی نہیں، بلکہ وہ اپنے گھر کے بجلی کے بل سے لے کر اپنی بیٹی کی شادی، بیٹے کی فیس، اور بیمار والدین کی دوا تک ہر لمحے ایک ذہنی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے۔
ٹرانسپورٹ کی مشکلات، بیمار تنخواہیں، بڑھتے ہوئے ٹیکس، افسران بالا کا ناروا رویہ، تبادلوں کی سیاست، اور معاشرتی بے حسی — یہ سب اس کے گرد ایک ایسا گرداب بن چکے ہیں جس میں وہ ہر روز ڈوبتا ہے، مگر اگلی صبح پھر سے آ کر بچوں کو خواب دکھاتا ہے۔ خود دن بھر فاقے سے گزرے گا، لیکن کسی طالب علم کے چہرے پر فکر کی ایک لکیر بھی برداشت نہیں کرے گا۔ یہی خلوص اس کے پیشے کی معراج ہے۔
یورپ کے اساتذہ سے اکثر موازنہ کیا جاتا ہے۔ وہاں کے اساتذہ کو ملنے والی تنخواہیں، سہولیات، عزت، بچوں کے لیے اسکالرشپ، صحت و تحفظ — سب قابلِ رشک ہیں۔ ان کے لیے تدریس ایک پیشہ ضرور ہے، مگر حکومت اور معاشرہ اسے ایک مقدس فرض کا درجہ دیتے ہیں۔ وہاں کا استاد جب بولتا ہے تو پارلیمنٹ خاموش ہو جاتی ہے، اور جب وہ لکھتا ہے تو سلیبس تبدیل ہو جاتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں استاد اگر احتجاج کرے تو اسے سیاست زدہ قرار دیا جاتا ہے، اگر سوال اٹھائے تو گستاخ، اور اگر خاموش رہے تو بے حس سمجھا جاتا ہے۔ طلبہ کے نتائج خراب ہوں تو الزام استاد پر، والدین مطمئن نہ ہوں تو نشانہ استاد، اور قوم میں اخلاقی گراوٹ ہو تو بھی ملامت استاد پر۔
اس سب کے باوجود ہمارے ہزاروں استاد آج بھی سچائی، محنت، اور خلوص کے ساتھ تدریس کے عمل میں مصروف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی تنخواہ میں برکت نہیں، لیکن شاید اُن کے اخلاص میں ہے۔ وہ مادی سہولتوں سے محروم ہیں، مگر روحانی وابستگی کی دولت سے مالا مال۔
یقیناً، چند ایسے بھی ہیں جو تدریس کو صرف ملازمت سمجھتے ہیں، جن کے دل میں نہ جذبہ ہے نہ آخرت کا تصور۔ لیکن ایسے افراد ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے اُن اساتذہ کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں جو نسلوں کی آبیاری میں لگے ہیں؟ کیا ہم انہیں صرف یورپ سے موازنہ کر کے کمتر سمجھ لیں، یا اُن کے لیے ویسی ہی قدر، سہولت اور عزت کا بندوبست کریں جیسا ایک باشعور معاشرہ اپنے معماروں کو دیتا ہے؟
پاکستانی استاد سے توقعات ضرور رکھیے، مگر اُن کے وسائل، حالات، تحفظات اور عزت نفس کو بھی نظرانداز نہ کیجیے۔ ورنہ ایک دن یہ قوم استاد تو ڈھونڈے گی، مگر ہاتھ میں صرف خالی بورڈ مارکر رہ جائے گا اور کلاس روم میں صرف سوالات — جو کبھی کسی کو پڑھائے ہی نہیں گئے۔