جہاں سوال کے بدلے سوال ہوتا ہے،
وہاں محبتوں کا زوال ہوتا ہے،
جب ہم کسی شخص سے نفرت کرنے لگتے ہیں، تو وہ کوئی بھی کام کرے، ہمیں تکلیف دہ لگتا ہے، چاہے وہ بالکل عام اور نارمل بات ہی کیوں نہ ہو،اصل میں یہ ہمارے دل کے اندر چھپی ہوئی نفرت ہوتی ہے، جو ہمیں ہر چیز منفی دکھاتی ہے۔ جب دل میں بغض ہو،تو ہنسی بھی چبھتی ہے، خاموشی بھی شک میں ڈالتی ہے۔ اور بات کرنا بھی حملہ محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً، اگر وہ شخص ہنسے، تو لگتا ہے کہ مذاق اُڑا رہا ہے۔ اگر بات کرے، تو لگتا ہے ہم پر تنقید کر رہا ہے۔اگر خاموش ہو جائے، تو لگتا ہے ہمیں نظر انداز کر رہا ہے۔ہم ایک ایسے دائرے میں پھنس جاتے ہیں۔ جہاں نہ سکون ہوتا ہے، نہ اطمینان، صرف الجھن، شک، اور ذہنی تھکن، نفرت ایک کالی عینک کی طرح ہوتی ہے۔جو ہر منظر کو بگاڑ کر دکھاتی ہے۔ جب کہ معافی، درگزر اور دل کا سکون ایک ایسا آئینہ ہے؛ جو چیزوں کو جیسے ہیں ویسے دکھاتا ہے۔ صاف، روشن اور پر سکون
اگر کبھی کسی کا رویہ بلا وجہ برا لگے۔ تو ایک لمحے کو خود سے پوچھو، کیا واقعی وہ شخص برا ہے؟ یا میرے دل میں کوئی ایسی بات ہے۔ جسے میں نے ابھی تک خود سے صاف نہیں کیا؟ بقول رومانوی شاعرہ پروین شاکر صاحبہ،
تم نے جو کہا وہ محبت کی بات تھی،
میں نےجو کہا یہ کیا بات تھی؟
ہم اکثر چاہتے ہیں کہ دوسرے بدل جائیں حالانکہ اصل تبدیلی ہمارے اندر سے شروع ہوتی ہے۔ جب دل محبت، معافی اور رضا سے بھر جائے۔ تو کوئی بھی ہمیں آسانی سے پریشان نہیں کر سکتا اور نہ ہی چھوٹی چھوٹی باتیں دل کو زخمی کرتی ہیں۔ اس لیے دل کو نرم رکھو، نگاہ کو صاف رکھو،اور دنیا تمہیں پہلے سے زیادہ روشن لگے گی۔
کیونکہ سکون باہر نہیں، دل کے اندر ہوتا ہے اور دل وہی دیکھتا ہے، جو اس کے اندر ہوتا ہے۔کہتے ہیں، پھول کھلتے ہیں تو صرف رنگ نہیں بکھرتے، جذبے بھی مہکتے ہیں۔ ہر پنکھڑی جیسے کسی خاموش محبت کا اقرار ہو، اور ہر خوشبو جیسے کسی بیتے لمحے کی واپسی۔ کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ ایک پھول کسی کتاب کے صفحے میں رکھ دیا گیا، اور برسوں بعد جب وہ صفحہ کھلا، تو ساتھ میں یادوں کی خوشبو بھی لوٹ آئی۔ ایسا ہی تو ہوتا ہے سچا تعلق عارضی موجودگی، مگر دائمی اثر۔ پھول بولا خوشبو سے، تُو ساتھ ہے کب تک؟
ہنس کے وہ بولی، جب تک دلوں میں خواب ہیں تب تک! محبت بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ نرم، نازک، مگر بے حد گہری۔ پھول، ظاہری خوبصورتی کا استعارہ ہے، اور خوشبو، اس کی روح کا ترجمان۔
جو صرف دیکھتا ہے، وہ پھول میں حسن تلاش کرتا ہے؛ اور جو محسوس کرتا ہے، وہ خوشبو میں جذبے پڑھتا ہے۔ تعلق اگر سچا ہو، تو وہ صرف موجودگی سے نہیں، احساس سے جیتا ہے۔ کچھ رشتے لفظوں کے محتاج نہیں ہوتے، وہ پھول کی خاموشی اور خوشبو کی بے لفظی میں پنپتے ہیں۔آخر میں پروین شاکر کے اشعار سے اجازت چاہوں گی۔
گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو،
کوئی وجود محبت کا
استعارہ ہو،
کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں،
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو۔۔