ڈیوڑھی ،دروازۓ اور گیٹ

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

2

یہ پچاس کی دھائی کی بات ہے جب پاکستان کے اکثر دیہاتوں اور قصبوں میں گھروں میں داخل ہونے کےلیے کچی دیواروں کی ایک ڈیوڑھی سی بنا دی جاتی تھی تاکہ گھر کا پردہ برقرار رہے ۔یہ ڈیوڑھی کسی گھر ،حویلی کے داخلی حصے کو کہا جاتا تھا جو مرکزی داخلے کا راستہ ہوا کرتا تھا اور اندورنی حصے تک جانے کا پہلا مقام ہوتا تھا ۔روائتی گھروں میں یہ مہمانوں کے انتظار یا دربان کی جگہ سمجھی جاتی تھی ۔یہاں سے آگے بڑھنے سے قبل آواز دۓ کر اپنی آمد کو باور کرایا جاتا تھا ۔دو یا تین تکونیں دیواروں سے گھر کا پردہ   اور رازداری قائم رہتی تھی کسی کو جرت نہ ہوتی کہ بلا اجازت اس ڈیوڑھی کو پار کرسکے ۔بلااجازت اسے عبور کرنا اخلاقی اور قانونی جرم تصور ہوتا تھا ۔پھر رفتہ رفتہ ڈیوڑھی سے پہلےایک دروازۓ کی ضرورت پیش آنے لگی  تاکہ رازداری ،حفاظت اور داخلی خارجی کنٹرول بہتر طور پر برقرار  رکھا جا سکے ۔دروازے کے پیچھے ڈیوڑھی نہ ہوتی تو ایک بڑا سا پردہ لگا دیا جاتاتھا ۔پھر دنیا کی سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ ہماری معاشرتی  ترقی بھی ہونے لگی  پھر دروازۓ بھی سائنسی  اور معاشرتی ترقی کے سامنے کمزور پڑنے لگے  تو ایک مین گیٹ کا تصور سامنے آیا جو مضبوطی کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔پھر بڑے بڑے گھروں میں یہ گیٹ سے پھاٹک میں بدل گئے۔چاردیواری  کے ساتھ ساتھ ڈیوڑھی ،دروازۓ اور گیٹ وغیرہ کا مقصد ایک ہی ہوتا تھا کہ گھر کی رازداری ،پردہ اور حفاظت کو ممکن بنایا جاسکے ۔کیونکہ چاردیواری اور گھر کے یہ دروازۓ ،مضبوط کھڑکیاں اور  لوہے کی جالیاں باہر کی دنیا سے ہر ممکن بچاؤ اور حفاظت کی کوشش ہوتی ہے ۔تاکہ چور چکار ،اجنبی ،نامحرم کی نظروں اور قدموں کو روکا جاسکے ۔اپنے گھر اور گھروالوں کو منفی دنیاوی فتنوں سے محفوظ رکھا جاسکے ۔لیکن  ترقی کی رفتار کے ساتھ ساتھ پھر ٹیلی فون ،ریڈیو ،ٹی وی ،وی سی ار ،کیبلز  اور سی سی ٹی وی نے گھروں میں چپکے سے قدم رکھا تو حالات  یکسر ہی بدل گئے فرق یہ پڑا کہ اب یہ ایسی جدید ایجادات تھیں جنہیں ڈیوڑھی دروازہ یا گیٹ روکنے سے قاصر تھا ۔یوں اب بہت کچھ ترقی کے نام پر نہ چاہتے ہوۓ بھی گھر وں کے اندر داخل ہونے لگا ۔فون کے ذریعے آواز داخل ہوئی  تو گھروں میں سکرین کی آمد سے تصویر نے انسانی رازداری کو تباہی کی طرف دھکیل دیا۔پھر موبائل فون کے ذریعے ترقی کا سفر شروع ہوا تو ہر ہاتھ میں موبائل فون کی موجودگی نے صورتحال یکسر ہی تبدیل کردی ۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے جا ل نے پورے ٔپورے ٔ گھروں کے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔والدین  ڈیوڑھی،دروازۓ اور گیٹ کو کنڈی   لگا کر سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے باہر کے فتنوں کی پہنچ سے دور  ہیں اور ان کے بچے گھروں میں محٖفوظ ہیں کیونکہ بظاہر تو وہ گھروں سے باہر بلا مقصد نکلتے ہی نہیں  مگر شاید وہ نہیں جانتے کہ اجنبی ،نامحرم   یہاں تک کہ اخلاقی مجرم ان کے گھروں تک رسائی حاصل کر چکے ہیں اور ان کے گھر کا کوئی راز اب محفوظ نہیں ہے ۔پوری دنیا سمٹ کر چند انچ کی سکرین میں آگئی ہے ۔سوشل میڈیا جہاں ہر لمحہ ایک نئی دوستی ایک نیا تعلق بنانے کی مکمل آزادی موجود ہے پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔ہمارۓ بناۓ ہوۓ یہ چاردیواری ،ڈیوڑھی ،دروازۓ بھی اس فتنے کو روکنے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں ۔سوشل میڈیا کا عفریت ہماری رازداری ،پردہ داری اور حفاظت کے سب دروازۓ اور ڈیوڑھیاں عبور کر چکا ہے ۔سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا منفی رجحان ہماری روائتی زندگی کو بڑی خاموشی تباہ کر رہا ہے ۔ناجانے کتنے گھر اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں کتنے ہی خاندان  برباد ہو چکے ۔چادر اور چاردیواری  کا تصور اس  چھوٹی سے سکرین نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ہمارۓ پاس آج کوئی ایسا دروازہ ،ڈیوڑھی یا گیٹ نہیں ہے جو اس تیزی سے بڑھتے ہوۓ عفریت کو روک سکے۔اب تو پوری کی پوری فیملی اس کا حصہ بن چکی ہے ۔ہر ہاتھ میں موبائل فون کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ سکرین اب ان کا  نشہ بنتا جارہا ہے یہاں تک کہ اب گھروں میں بچے سلانے کے لیے لوریوں کی بجاۓ موبائل پکڑا دیا جاتا ہے ۔بچے موبائل کے بغیر کھانا نہیں کھاتےبلکہ سوتے بھی نہیں ۔ہماری ماوں نے بچوں کو موبائل دیکر چپ کرکے سکون کا سانس لیا ہے ۔جی ہاں ! اس کے ذمہدار ہم خود ہیں ۔بچہ تو وہی کرتا ہے جو دیکھتا ہے ۔ہمارۓ ہاتھ میں کتاب ہوگی تو وہ کتاب ہی پکڑے گا لیکن اگر ہم ان کے سامنے موبائل ہر وقت استعمال کریں گے تو وہ بھی ایساہی کرۓ گا۔کسی کا موبائل ذرا کہیں چند لمحوں کے لیےدائیں بائیں ہوجاۓ تو پریشانی کا عالم دیدنی ہوتا ہے۔موبائل چارجر نہ ملے تو پاگلوں کی طرح تلاش کیا جاتا ہے ۔کہانیوں میں پڑھتے تھے کہ جن کی جان کسی ایک طوطے میں ہوا کرتی تھی مگر یہ معلوم نہ تھا کہ ایسا وقت بھی آۓ گا کہ انسان کی جان موبائل میں پھنس کر رہ جاۓ گی ۔ایسا موبائل جو انسانی سہولت کے لیے ایجاد ہوا مگر آج اس سے پھیلنے والا سائبر کرائم شاید دنیا کا  سب سے خطرناک جرم اور فتنہ بنتا جا رہا ہے ۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارۓ میں پوچھا جاۓ گا “(بخاری ومسلم) والدین کی ذمہ داری صرف کھانے پینے اور کپڑے فراہم کرنے تک محدود نہیں۔ انہیں اپنی اولاد کی اخلاقی تربیت بھی کرنی ہے۔ اگر والدین نے یہ سمجھ لیا کہ ان کی ذمہ داری بس مادی ضروریات پوری کرنے تک محدود ہے، تو یاد رکھیں کہ ایک دن یہی اولاد ان کی آنکھوں کے سامنے برباد ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا اور موبائل کے استعمال کی زیادتی نے گھروں میں باہمی تعلقات کو بے حد کمزور کردیا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں  کیا کیا جاۓ ؟اور یہ کیسے کیا جاۓ ؟

گو جدید ٹیکنالوجی سے بچوں کو دور نہیں رکھا جاسکتا لیکن اسے متوازن ضرور بنایا جاسکتا ہے ۔سب سے پہلے تو والدین کو خود محتاط ہونا پڑے گا ۔اگر خود والدین ہی موبائل اور سوشل میڈیا کے عادی ہوں گے تو اولاد کیسے بچ سکتی ہے ؟ گھروں میں موبائل فون فری زون بنائیں ۔کھانے کی میز ،بیڈ روم اور فیملی اجتماعات کے دوران موبائل کا استعمال بند کریں ۔بچوں کو عادت ڈالیں کہ وہ ایک مخصوص اورمحدود وقت پر اس کا استعمال کریں ۔اولاد کو شعور دیں کہ ہر چمکتی شے سونا نہیں ہوتی۔سوشل میڈیا پر جھوٹ زیادہ اور سچ کم ہوتا ہے ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں اولاد کو رازداری ،حیا ،عزت اور پردے کی اہمیت سمجھائیں یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم ان کی دینی تعلیم اور تربیت پر توجہ دیں ۔باہمی اعتماد کا رشتہ بنائیں۔ ایسا نہ ہو کہ خوف کی دیواریں اولاد کو والدین سے ہی دور کر دیں۔ روزآنہ کچھ وقت انہیں دیں اور ان کے مسائل سنیں اور انہیں پیار و حکمت سے حل کریں۔ ہفتہ میں ایک دن ڈیجیٹل روزۓ یعنی بغیر موبائل گزارنے کی عادت ڈالیں ۔گھر میں مختلف مثبت سرگرمیوں کو فروغ دیں ۔بچوں اور نوجوانوں سے سوشل میڈیا اور موبائل کے مثبت اور منفی اثرات پر کھل کر گفتگو کریں ۔یاد رکھیں کہ ہمیں آج حقیقی حفاظت کی ضرورت ہے ۔ دروازے اور گیٹ بند کرنے سے برائی اور فتنے نہیں رکتے، اس کے لیے دلوں کو تقویٰ سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اولاد کے دل میں حیا اور خوفِ الہیٰ ہوگا، تو کوئی بھی سوشل میڈیا کا فتنہ اسے بہکا نہیں سکے گا۔ اس لیے اصل توجہ موبائل چھیننے کے بجائے دلوں کو ایمان سے جوڑنے پر ہونی چاہیے۔چند دن قبل ایک مسجد کی دیوار پر اشتہار آویزاں دیکھا تو بہت پسند آیا جس پر درج تھا ” اگر مسجد میں بچے شرارت کریں  یا شور مچائیں تو ان سے درگزر کریں  ،انہیں مت ڈانٹیں کیونکہ یہ بچے ٹی وی ،انٹرنیٹ چھوڑ کر مسجد میں آتے ہیں کل یہی ہمارے بعد دین کو زندہ رکھیں گے ”

ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ حفاظت صرف دیواروں ،ڈیوڑھیوں ،دروازوں اور گیٹ لگانے سے ہی نہیں، دلوں اور ذہن کی سوچ سے بھی کی جاتی ہے۔آئیں    اپنے گھروں کی حفاظت کے لیے ان کے ارد گرد  مثبت اصولوں کی دیواریں کھڑی  کریں ۔اینٹ اور مٹی کی بجاۓ اپنے دلوں کےارد گرد ایمان وتقویٰ کی ڈیورھی تعمیر کریں ۔لکڑی اور لوہے کے گیٹ اور دروازۓ کی بجاۓ گھروں کی حفاظت اللہ اور اسکے رسول کی تعلیمات کے مطابق کریں ۔اللہ سے دعا کے ذریعے مدد طلب کریں  کہ وہ ہماری اولاد کے دلوں میں مثبت سوچ  اور صبر و تحمل پیدا کرۓ کیونکہ دعا کی قبولیت کے دروازۓ مثبت سوچ اور صبر کی چا بی سے ہی  کھلتے ہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.