عورت کو ادیبہ یا شاعرہ ماننا مردوں کے لیے کیوں مشکل ہے؟

تحریر : رخسانہ سحر

8

صدیوں سے تخلیق، علم، فکر، اور اظہار پر مرد کا غلبہ رہا ہے۔ ادب بھی اس غلبے سے مبرّا نہیں۔ عورت اگر کسی مرد کی نظم کا موضوع بنے، تو اسے “موسم کی طرح خوبصورت” کہا جاتا ہے، مگر وہی عورت جب خود نظم کہتی ہے، قلم اٹھاتی ہے، تو اسے اکثر صرف ایک حادثہ، ہمدردی، یا صنفی رعایت سمجھا جاتا ہے — یہ رویہ محض اتفاق نہیں، بلکہ صدیوں پر محیط ذہنی تربیت کا حاصل ہے۔
عورت کو ادیبہ یا شاعرہ ماننا مردوں کے لیے اس لیے مشکل ہے کہ وہ عورت کی تحریر میں صرف الفاظ نہیں، ایک پورا جہان دیکھتے ہیں — ایسا جہان جو ان کی طاقت، برتری، انا اور بنائے گئے جھوٹے اصولوں کو بےنقاب کر دیتا ہے۔
مرد جب لکھتا ہے تو معاشرہ اسے فکری رہنما، دانشور اور استاد کا مقام دیتا ہے۔ مگر جب عورت وہی حق استعمال کرتی ہے، تو سوالات اٹھنے لگتے ہیں: “یہ تو بہت باغی لکھتی ہے”، “اس کے الفاظ میں تلخی ہے”، “کسی نے دل تو نہیں توڑا؟” گویا عورت کا لکھنا ذاتی صدمے یا بےراہ روی کا نتیجہ ہونا لازم ہے، فکری صلاحیت کا نہیں۔
مرد ادیب کے لیے عورت ایک مسلسل موضوع رہی ہے — حسن، ہجر، وفا، قربانی، وفاداری، گناہ، معافی۔ مگر جب عورت خود لکھتی ہے تو وہ خود کو “موضوع” سے نکال کر “مصنفہ” بنا لیتی ہے، اور یہی تبدیلی مرد کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ وہ جس عورت کو صنم سمجھ کر شعر کہتا تھا، جب وہ خود اپنی عبادت کا منکر ہو، تو اس کا دیوتا کیوں نہ بپھر جائے؟
عورت کی زبان، جب فکر کے سانچے میں ڈھل کر سماج کو آئینہ دکھاتی ہے، تو مرد کی انا اس شفافیت سے لرزتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ یہ عورت اب محض سننے والی نہیں، بولنے والی، لکھنے والی اور سوچنے والی ہے — یعنی وہ طاقت میں شریک ہے۔ اور طاقت میں شراکت، برابری کا آغاز ہوتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جو مرد کو سب سے زیادہ ناگوار گزرتا ہے۔
ایک مرد شاعر کے ہاں اگر جذبات ہوں تو اسے “رومانوی” کہا جاتا ہے، مگر عورت اگر دل کی بات کرے تو اسے “جذباتی” اور “غیر منطقی” کہہ کر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ مرد اگر سماج پر لکھے تو “بیدار مغز”، عورت اگر معاشرے کے خلاف بولے تو “ناشکری”۔ یہ دہرا معیار عورت کے تخلیقی وجود کو مسلسل غیر سنجیدگی کے زمرے میں رکھنے کی کوشش ہے۔
عورت جب لکھتی ہے، تو وہ سماج کی اس خاموش تاریخ کو آواز دیتی ہے جو صدیوں سے دبی ہوئی تھی — ماں کی چپ، بیٹی کی قربانی، بیوی کی خامشی، اور بہن کی بے آواز تنہائی۔ اس کی نظم صرف الفاظ نہیں، ایک اجتماعی المیہ کا اعتراف ہے۔ یہ اعتراف اکثر مرد کے لیے ناقابلِ قبول ہوتا ہے، کیونکہ وہ اس کہانی کا “خاموش مجرم” بھی ہو سکتا ہے۔
عورت کو ادیبہ یا شاعرہ ماننا مردوں کے لیے مشکل ہے، کیونکہ وہ اس کو صرف ایک لکھنے والی نہیں، ایک سوال اٹھانے والی، ایک حقیقت دکھانے والی، اور ایک طاقت بانٹنے والی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور طاقت، مرد کے سماجی وجود کا وہ ہالہ ہے جس میں شریک ہونا عورت کے لیے ہمیشہ “خطرہ” سمجھا گیا۔
عورت کی تحریر ایک آئینہ ہے۔ مگر اس آئینے میں مرد صرف عورت کو نہیں، خود کو بھی دیکھتا ہے — اور یہی منظر اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.