ہم کہاں کھڑے ہیں؟

زیر و زبر تحریر:راؤ غلام مصطفی Email:rgmustafa555@yaho.com

7

سیاسی تناؤ نے ملک کی معیشت کو جہاں حددرجہ متاثر کیا ہے۔وہیں سماج اور اداروں پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔سیاسی عدم استحکام کے باعث اقتصادی ترقی معدوم ہو کر رہ گئی ہے. اور ملک میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی میں عوام کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔لیکن حالات ایسے ہیں ایک طرف جہاں سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی رک گئی ہے۔وہیں عوام میں زورآور مہنگائی،بےروزگاری اور غربت کی شرح میں اضافہ نے عوامی اعتماد کو متاثر کیا ہے۔کیونکہ عوام کو قومی دھارے میں لانے کے لئے سماج میں روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے۔لیکن حکومت کی جانب سے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔ملک میں 40 فیصد عوام خط غربت کی لکیر نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔حکومت کی کارکردگی کا مطلب عوام کو ڈلیور کرنا ہے۔مہنگائی میں کمی،روزگار کی فراہمی اور غربت کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیئے۔لیکن بظاہر حالات سے اخذ کرنا دشوار نہیں حکومت ایسے اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ نہیں جن سے عام آدمی کی زندگی میں آسودگی ائے۔ملک کی معیشت گراوٹ کا شکار ہے صورتحال یہ ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں۔محکموں میں ڈاؤن سائزنگ جاری ہے جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل کی کمی اور حکومتی انتظامیہ کی کمزوری مہنگائی میں اضافہ کا سبب ہے۔ملک میں حکومتوں میں تبدیلی اور سیاسی بحرانوں کی وجہ سے اقتصادی پالیسیوں کے تسلسل میں کمی واقع ہوئی ہے۔جس کے باعث کاروباری ماحول غیر مستحکم ہو گیا ہے۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حکومتی اداروں کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔جس کی وجہ سے عوامی خدمات کی فراہمی میں بھی مشکلات آ رہی ہیں۔ملک میں سیاسی بحران کو حل کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے سنجیدہ اقدامات ہونا چاہیئے۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت سیاسی بحران کے خاتمہ میں سنجیدہ نہیں ہے۔ملک میں اس وقت معاشی ناہمواری نے ایک اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔جس سے عوام کا اداروں پر اعتماد کم ہو رہا ہے اور سماجی ہم آہنگی متاثر ہو رہی ہے۔سیاسی تناؤ نے پہلے ہی ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔احتجاج اور مظاہروں نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کو بڑھاوا دیا ہے۔جس سےملک میں سیاست نفرت اور تعصب کا موجب بن رہی ہے۔ایسے حالات میں جہاں ملک اور عوام معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔وہیں ملک دشمن عناصر اور بیرونی دشمن بھی ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور ملک میں امن و امان کی صورتحال متاثر ہوتی ہے۔یہی نہیں سیاسی عدم استحکام بین الاقوامی تعلقات کو بھی متاثر کرتا ہے۔جس کی وجہ سے اقتصادی اور تجارتی مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔اور پاکستان سیاسی عدم استحکام کے باعث ان نازک مراحل سے گزر رہا ہے۔یہ صورتحال بڑی الارمنگ ہے۔ملک میں جاری سیاسی تناؤ کا ہی نتیجہ ہے۔بین الاقوامی امداد میں بھی رکاوٹیں حائل ہو رہی ہیں۔ جو ہمارے جیسے پس ماندہ ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے۔پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ملک کی معیشت، اداروں اور سماج پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔اس سیاسی بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔کہ سیاسی استحکام کے فروغ کے لئے مثبت کوششیں کی جائیں۔اور حکومت اور ریاست کو مل کر چاہیئے ایسا سازگار ماحول پیدا کیا جائے۔جہاں حکومت اور اداروں پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔سیاسی قائدین پر ملک میں جو بے بنیاد مقدمات کا ایک تسلسل ہے۔اس سے مفادات،اختیارات اور اقتدار کو تو دوام مل سکتا ہے۔لیکن ملک کی معیشت اور سماج کی ترقی رک جاتی ہے۔جس سے ملک میں بحران جنم لیتے ہیں۔پاکستان جیسا ملک تو ویسے بھی ایسے حالات کا متحمل نہیں ہے۔جمہوریت کی مضبوطی اور سیاسی استحکام کے فروغ کے لئے عملی کوششوں سے ہی ملک جاری بحرانوں سے نکل سکتا یے۔سیاسی قائدین پر بے بنیاد مقدمات کا باب بند کرنا ہو گا۔
ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہیئے کہ ملک میں سیاست کو استحکام ملے اور جمہوریت مضبوط ہو سکے۔اور اس کا حل صرف مذاکرات ہیں۔جب تک سیاستدان ایک ٹیبل پر بیٹھ کر سیاسی استحکام کو فروغ دینے کے لئے اپنی مفاداتی سیاست کو دفن نہیں کریں گے تب تک ملک کی سیاست کو استحکام نہیں مل سکتا۔یہ حالات فکر مند اشارہ ہیں سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک کو کتنا نقصان ہو رہا ہے۔اور اس کے براہ راست منفی اثرات ملک کی معیشت، ترقی اور عوام کو متاثر کر رہے ہیں۔ملک میں غیر یقینی کی صورتحال سے بیرونی سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنے میں گھبرا رہے ہیں۔مقامی سرمایہ کار نئی سرمایہ کاری کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔آپ لاکھ دعوے کر لیں کہ معاشی استحکام کو فروغ مل رہا ہے۔لیکن کیسے ممکن ہے ملک میں جب سرمایہ کاری نہیں ہو گی۔بے روزگاری کی شرح میں کمی واقع نہیں ہو گی۔صنعت کا پہیہ نہیں چلے گا۔مہنگائی کے گراف میں اضافہ ہو گا۔ترقیاتی منصوبے سست روی کا شکار ہوں گے۔ادارے کمزور ہوں گے قانون کی حکمرانی متاثر ہو گی۔عدلیہ،پارلیمنٹ اور دیگر ادارے دباؤ کا شکار ہوں گے۔بیوروکریسی کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہو گی،احتجاج،ہڑتالیں اور مظاہروں میں اضافہ ہو گا۔لاقانونیت، بدامنی اور جرائم میں اضافہ ہو گا۔ریلیف سے محروم عوام کا اعتماد حکومت اور نظام سے اٹھ جائے گا۔ جب ہم دوسرے ممالک کا اعتماد کھو بیٹھیں گے۔جب بین الاقوامی امداد اور معاہدے متاثر ہوں گے۔اور ایسے حالات میں مارشل لاء یا غیر آئینی اقدامات کا خطرہ بڑھ جائے۔تو آپ کیسے دعوٰی کر سکتے ہیں کہ ملک کی معاشی اور ترقی کی سمت درست ہو گئی ہے۔ملک میں سیاسی تناؤ میں کمی کے بغیر ایسے دعوے بے معنی ہوتے ہیں۔ہر حکومت میں ترجمانون کی ایک ایسی فوج ظفر موج موجود ہوتی ہے۔جو صرف اپنے بیانات سے چنگاری کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔ان ترجمانوں نے کبھی ملک کے استحکام کو پیش نظر نہیں رکھا صرف پارٹی پالیسی کا بیانیہ ان کے نزدیک اہم ہوتا ہے۔کوئی بھی سیاسی جماعت جب اقتدار

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.