ہمارے دادا جان مرحوم جب اپنے گاوں اکبر پور باروٹہ سے سونی پت شہر آۓ تو کرایہ پر ایک گھر لیا جو “مشہد شریف ” نامی ایک محلے میں تھا جسے عام لوگ “کوٹ ” کہہ کر پکارتے تھے۔یہ یہاں کے معزز سیدوں اور اہل تشیع کا محلہ کہلاتا تھاجہاں ارد گرد تمام گھر سونی پت کے سادات اور اہل تشیع کے گھرانوں کے ہوا کرتے تھے ۔یہی وہ جگہ ہے جہاں آج سے ایک سو پانچ سال قبل ماہ جون کی نو تاریخ کو ہمارۓ والد صاحب کی ولادت ہوئی وہ ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ان کی جاۓ پیدائش “مشہد شریف ” ہے ۔وہیں سے انہوں نے اپنی دینی و دنیاوی تعلیم کا آغاز کیا تو ان کے ایک کلاس فیلو پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک صرف کلاس فیلو ہی نہیں لنگوٹیے دوست بھی تھے ۔یہ دوستی کا رشتہ قیام پاکستان کے بعد اس وقت بھی قائم رہا جب ان کے یہ دوست ترقی کرتے کرتے چیرمین واپڈا تعینات ہوۓ ۔جی ہاں ! سید نزہت حسین جعفری مرحوم اباجی کے وہی پرانے دوست تھے ۔ان کے عروج کے دنوں میں ایک مرتبہ خانیوال میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو بڑی شفقت سے پیش آۓ ۔کہنے لگے جاوید ! تمہارے ٔ والد بہت بڑے انسان ہیں جب ہم پڑھتےتھے تو ہمیشہ پورے سال وہ ہر مضمون میں اول آتے تھے لیکن جب سالانہ امتحان ہوتا تو میں اول آتا اور وہ دوسری پوزیشن پر ہوتے ۔ہمارےاستاد “رن بازخان “مرحوم نے جب یہ صورتحال لگاتار تین سال تک دیکھی تو ایک دن تمہارۓ اباجی کو بلایا اور انہیں ڈانٹا کہ پورے سال سب سے آگے آگے ہونے کے باوجود دوسری پوزیشن کیوں آتی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے والد نے مجھے “سید ” کا بڑا احترام سکھایا ہے ۔مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ ہمارے پیارے نبی کی اولاد ایک “سید زادہ “دوسری پوزیشن پر ہو اور میں ایک امتی ہوکر اول آجاوں اس لیے سالانہ امتحان میں میں کچھ نہ کچھ ایسا کردیتا ہوں کہ دوسری پوزیشن پر چلا جاوں ۔ماسٹر رن بازخان نے کہا برخوردار تمہیں اولاد رسول سے محبت کی نعمت ورثے میں ملی ہے ۔اس کی جزا بھی ملے گی ۔میں ہمیشہ تمہارۓ والد کو بھی ایسا ہی کرتے ہی دیکھتا آیا ہوں ۔ پھر سید نزہت حسین جعفری مرحوم فرمانے لگے تمہارۓ والد نے استاد محترم سے درخواست کی کہ یہ بات سید نزہت حسین جعفری کو پتہ نہیں چلنی چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا دل ٹوٹ جاۓ وہ میرا بہت پیارا دوست ہے ۔لیکن ایسی باتیں کب چھپی رہتی ہیں چھٹی جماعت میں مجھے یہ راز پتہ چلا تو ہماری دوستی مزید مضبوط ہو گئی ۔ان کے ایک اور دوست سید محمد نقی جعفری مرحوم نے بھی بتایا کہ وہ اسکول میں دوڑ میں بھی جان بوجھ کر ہم سے پیچھے رہ جایا کرتے تھے۔
مجھے فخر ہے کہ سادات کی عزت وتکریم کا یہ سلسلہ ہمارے گھر میں آج بھی جاری ہےسادات سے محبت ہمارا ورثہ ہے ۔ میں نے جب بنک الفلاح ماڈل ٹاون بی برانچ کا آغاز کیا تو میرا تعارف سید وحید حیدر حسن رضوی مرحوم سے ہوا جب انہوں نے اپنا نام بتایا تو میں احتراما” اٹھ کر کھڑا ہو گیا وہ بڑے حیران ہوۓ اور پھر جب ان کو الوادع کہنے میں دروازے تک آیا تو کہنے لگے آپ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں ؟ تو میں نے کہا جی ہاں ! آپ کے سید ہونے کاپتہ چلنے کے بعد کسی تعارف کی ضرورت نہیں رہتی اس سے بڑا اعزاز دنیا میں اور کیا ہو سکتا ہے ؟ انہوں نے بڑھ کر گلے لگا لیا اور نہایت ہی محبت سے مجھے اپنے مخصوص انداز میں پیار کیا کہنے لگے مجھے تمہارا یہ رویہ بہت اچھا لگا ہے ۔پھر بتایا کہ میں یہاں اکاونٹ آفس میں سینیر آڈیٹر ہوں اب آپ سے ملاقات رہے گی ۔اور پھر ان سے ملاقات معمول بنتی چلی گئی ۔اکثر جب فرصت ملتی گھنٹوں میرے کیبن میں بیٹھنا اور خصوصی چاۓ پینے کے لیے تشریف لانا میرے لیے بڑا اعزاز تھا ۔ان کی وجہ سے بہاولپور میں میرا حلقہ احباب پھیلتا چلا گیا ۔ایک روز میرے بیٹے کا فون آیا تو وہ تشریف فرما تھے بیٹے کا نام سن کر چونکے کہنے لگے آپ کے بیٹے کا نام “ابوطالب “کس نے رکھا ہے ؟تو میں بتایا کہ میرے والد صاحب نے رکھا تھا وہ حضرت ابوطالب ؒسےوالہانہ عقیدت اور محبت رکھتے تھے اور اباجی کہتے تھے کہ “محسن رسول “کے نبی کریم ؐ پراحسانات کاتقاضا ہے کہ انہیں ہمیشہ یاد رکھا جاۓ ۔کہنے لگے کاش آپ کے والد محترم زندہ ہوتے تو میں ان کی زیارت ضرور کرتا ۔سید وحید حیدر رضوی عجیب درویش شخصیت تھےمزاج میں ادبی ذوق کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔ جوں جوں ان کی شخصیت کے اسرار کھلتے گئے تو پتہ چلا وہ ایک بہترین محبت کرنے والے بھائی ، ایک شفیق باپ ، ایک سعادت مند بیٹے ،اور ایک پر خلوص دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درد مند دل رکھنے والے انسان تھے ۔ ایمانداری ،دیانت ،خلوص و سچائی کا پیکر تھے ۔پچھلے سال جب میں عمرہ کرنے گیا تو ہر روز خریت کا پیغام ملتا اور اپنی والدہ کے صحت کے دعا کی درخواست کرتے تو ہمارا پورا خاندان روضہ رسول پر اجتماعی دعا کرتا ۔میری بیٹی منزہ جاوید جو ڈینٹل سرجن اور ان کی معالج بھی تھی ہمیشہ کہتے کہ یہ میری بیٹی خدیجہ کی طرح ہے ۔میری ملاقات اور تعلق ان سے گو مختصر ضرور تھا لیکن محبت کے سفر میں طوالت نہیں دیکھی جاتی ۔دکھ یہ ہے کہ اپنے تعلق کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیشہ قائم رکھنےوالی ہستی اور ہر صبح نیک دعاوں کا تحفہ بھجنے والی شخصیت اب ہم میں نہیں رہی ۔وقت کی بےرحمی دیکھیں کہ کہ وہ جو کبھی ہمارےدرد کا مداو ہوا کرتا تھا آج وہی ہماری زندگی کا درد بن کر رہ گیا ہے ۔بےشک اس عارضی دنیا میں کسی کو ثبات نہیں لیکن یار ایسی بھی کیا جلدی تھی ؟ ا بھی تو آپکی بہت سی باتیں ادھوری تھیں وہ تو مکمل کر لیتے ؟ ابھی تو ہم کچھ کہنے کو لفظ ہی ڈھونڈ رہے تھے انہیں مکمل جملہ تو بننے دیتے ؟
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ احساس
کہ تو نہیں تھا تیرے ساتھ ایک دنیا تھی
میں نے ایک مرتبہ اپنے درویش صفت والد صاحب سے پو چھا کہ کسی اچھے انسان کی کیا خوبیاں ہوتی ہیں تو فرمایا اچھے انسان وہ ہوتا ہے جس کی خوبیاں نہ صرف اس کے اپنے کردار کو سنوارتی ہیں بلکہ معاشرۓ کو بھی مثبت طور پر متاثر کرتی ہیں ۔وہ چاہے اس کی اخلاقی بلندی ہو ،ہمدردی اور رحم دلی ہو ،برداشت وتحمل ہو ،انصاف پسندی ہو ،تواضع اور عاجزی ہو ،ذمہ داری کااحساس ہو ،دوسروں کی خوشی اور غم میں شمولیت ہو ، دیانتداری اور ایمانداری ہو ،علم وحکمت کی بات ہو ،وفاداری اور اعتمادہو ،یا پھر اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا ہو ،نیکی کو پھیلانے اور برائی سے روکنے کی کوشش ہو ،تو انسانیت ایسے شخص پر ناز کرتی ہے ہم نےپوچھاکہ اباجی ! چند لفظوں میں بتائیں تو فرمایا جس انسان کے ہاتھوں سے خیر تقسیم ہوتی ہو اور اسکی ذات سے لوگوں کو فیض مل رہا ہو وہی دنیا کا بہترین فرد ہوتا ہے ۔جب اللہ کسی پر خصوصی مہربان ہوتا ہے اور بڑی عزت دینا چاہتا ہے تو اس سے لوگوں کے کام ڈال دیتا ہے ۔اس لیے وہ ہر اچھا عمل دکھاوے کی بجاۓ اللہ کی خوشنودی کے لیے کرتا ہے ۔آج میں جب غور کرتا ہوں تو مجھے یہ سب خوبیاں سید وحید حیدر رضوی مرحوم کی شخصیت میں نمائیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ان کی ذ ات اور ہاتھ سے فیض بٹتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔
آج بڑے دکھ سے اور گہرے رنج والم کے ساتھ اس باوقار سید زادے دوست کی ناگہانی وفات پر بہت رنجیدہ ہوں ۔ان کی اچانک جدائی دل کو بےحد مغموم کر گئی ہے ۔وہ اپنے کردار ،گفتار اور سیرت میں ایک روشن چراغ کی مانند تھے جن کی روشنی نے نہ صرف اپنے اہل خانہ بلکہ دوست احباب اور ملنے والوں کی زندگیوں کو بھی منور کیا ۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مرحوم کی ممغفرت فرماۓ اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے ا ور انہیں اہل بیت کے جوار رحمت میں جگہ عطا فرماۓ آمین ! ان کے خاندان اور بچوں کو صبر جمیل کے ساتھ ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دۓ اور وہ بھی اپنے والد کی مانند دین ،اخلاص اور انسانیت کا پیکر بنیں اور ان کے لیے صدقہ جاریہ ثابت ہوں۔