جس شخص کی موت پر لوگ افسوس کریں وہ یقینی طور پر بھلائی اور نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانے والا شخص ہوتا ہے ، دنیا کے ہر انسان کو ایک نہ ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے وہ آج نہیں تو کل اس جہان فانی کو چھوڑے گا ، دوسروں کی خدمت اور بھلائی کی خاطر ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرنے سے زیادہ بہتر موت اور کیا ہو سکتی ہے وہ لوگ جنہوں نے زندگی بسر کی ہوتی ہے ان کی موت بھی زندگی ہوتی ہے اور جو لوگ عمر بسر کرتے ہیں ان کی عمر بھی موت بن جاتی ہے کیونکہ زندگی جاگ کر اور عمر سو کر گزرتی ہے مجھے اپنے استاد سابق ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول پانڈو ال بالا محمد اشرف رانجھا کی وفات کی خبر ملی تو یقین جانیئے ، بے پناہ دکھ ہوا اور ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہ ہو سکے گا انا للہ وانا علیہ راجعون۔
پھول وہ شاخ سے ٹوٹا کہ چمن ویران ہے
آج منہ ڈھانپ کے پھولوں میں صبا روئے گی
محمد اشرف رانجھا بے شمار محاسن کا مجموعہ تھے ، وہ نظر بہ ظاہر ایک انسان تھے مگر اپنی ذات میں انجمن تھے ، مرحوم کے والد گرامی غلام حیدر مرحوم سے میرے والد گرامی مولانا فضل حسین مرحوم کے بڑے اچھے تعلقات تھے اور وہ لوگ اب اس بستی میں نظر نہیں آتے تو دنیا اندھیر نظر آتی ہے۔
یا رب وہ ہستیاں اب کس دیس بستیاں ہیں
جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
پچھلی صدی نے بڑے لوگ پیدا کیئے اور اسی صدی نے ان بڑے لوگوں کو کھا لیا اب 21ویں صدی میں اس پائے کے لوگ مجھے نظر نہیں آتے ، اٹھارویں ، انیسویں اور بیسویں صدی بڑے لوگوں کی صدیاں تھیں جن کو بیسویں صدی کھا گئی ، علامہ اقبال نے اس قحط الرجالی پر پرزور ماتم کیا تھا
پھر نہ اٹھا کوئی رومی ، عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی
مجھے یاد پڑتا ہے کہ آپ نے اسلامیہ ہائی اسکول پانڈووال میں ایک ڈرامے میں جمیلہ کا کردار ادا کیا تھا ، الجزائر کی غالباً جمیلہ کا کردار تھا وہ مرحوم نے بڑی خوبی اور مشاقی سے نبھایا تھا ۔
مولائے کریم محمد اشرف رانجھا کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ان کی موت پر سابق وائس پریزیڈنٹ حبیب بینک چوہدری اللہ بخش گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول کے سینیئر ٹیچر محمد ظفر رانجھا نے گہرے صدمے اور دکھ کا اظہار کیا ہے ، میری اس سلسلے میں ایک تجویز ہے کہ گورنمنٹ ہائی سکول پانڈوال بالا اپنے ان رفتگان کو یاد رکھنے کے لیئے ان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کرئے تاکہ ان لوگوں کو یاد رکھا جائے ۔ب محمد اشرف رانجھا شرافت کا پیکر اور اخلاق و کردار کے خوبصورت انسان تھے کچھ لوگوں کی موت رائیگاں نہیں جاتی ان کا کام، ان کا مشن ہمیشہ زندہ رہتا ہے ، محسن نقوی نے کہا تھا ،
عمر اتنی تو عطا ہو میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو تر سے
اس سلسلے میں میری التماس ہوگی کہ ان کے بھائی جناب آصف حیدر جو اس وقت گورنمنٹ ہائی سکول میں استاد کے منصب پر فائز ہیں ، وہ محمد اشرف رانجھا کی یاد میں کوئی ڈسپنسری کوئی فلاحی ادارہ قائم کر کے ان کو وہ ہمیشہ زندہ رکھیں ایسے لوگ دوسروں کے لیئے ایک نمونہ ہوتے ہیں اس لیے کسی مغرب کے دانشور نے بھی کہا تھا اگر کسی مرنے والے کا مشن زندہ ہے تو وہ بھی زندہ ہے دنیا کی کوئی طاقت اسے انسانی حافظوں سے محو نہیں کر پاتی ، موت تو ایک ایسی حقیقت ہے جو سبھی کو آنی ہے مگر کچھ لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ان کو اس لئیے لوگ یاد رکھتے ہیں کہ انہوں نے دنیا میں خدمت، بھلائی اور خیر کے کاموں میں سبقت لی ہے ، دلوں کو فتح کرنے کا فن سیکھنے والے ہی انسان ہوا کرتے ہیں اگر تمہیں زندگی سے محبت ہے تو انسانیت سے محبت کرو ، جہنم سے بچنا چاہتے ہو تو انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بناؤ اللہ تک پہنچنے کے لیئے انسانوں کے دلوں کی شاہراہ استعمال کرو بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے دل کے اندر اتر کر ان کے دکھ کا اندازہ کرئے ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنی ذاتی صلاحیتوں کا رخ انسانیت کی بہبود کی جانب پھیر دے ، انسانیت کی خدمت سے بے نیاز رہنا ہر قسم کے بندھنوں سے آزاد ہونا ہے قبیلوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے لوگوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ سب ہیں تو ایک ہی نسل انسانی سے ، جب تک ہم میں بنی نوع انسان کی خوبیاں پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک حقیقی انسانی سماج کی تشکیل ناممکن ہے انسانیت کے لیئے کام کرو انسانیت کا خطاب سب خطابات سے بڑھ کر ہے ، اگر تجھے دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیں ہے تو اس قابل نہیں کہ تجھے انسان کہا جائے آدمی پیدا ہوتا ہے انسان تہذیبی عمل سے بنتا ہے میں ہر روز انسانوں کی تلاش میں نکلتا ہوں اور حقیقت یہ ہے کہ اس دھرتی پر انسان تھوڑے اور ہجوم اور بھیڑ بہت زیادہ ہے بلکہ یہ زمین کپکپا رہی ہے اور زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ میرے اوپر چلنے والے انسان کہاں گئے جو حلقہ ء یاراں میں ابریشم کی طرح نرم اور دشمنوں میں فولاد کے پیکر ہوا کرتے تھے بہرحال محمد اشرف رانجھا مرحوم کو یاد رکھا جائے گا میں ان کے لواحقین کے ساتھ ، ان کے بچوں کے ساتھ، ان کے خاندان کے ساتھ اظہار ہمدردی اور اپنے غم آلود جذبات پہنچانا چاہتا ہوں مولائے کریم مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا ہوں گی کہ صورتیں پنہاں ہو گئیں
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ ء نورستہ اس