انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ کے زیر اهتمام بر صغیر میں حالیہ پاک انڈیا جنگ کے بعد سلگتے مسائل میں سے پانی جیسے اہم ترین مسئلہ پر جو بہت کچھ سلگا سکتا ہے سیمینار کا اهتمام کروایا ۔ وفاقی وزیر آبی وسائل معین وٹو، سابق صوبائی وزیر آب پاشی محسن لغاری ، مجیب الرحمن شامی ، سہیل وڑائچ ، جاوید فاروقی ، ذوالفقار مہتو, یاسر حبیب آبی ماہر چوهدری شفیق ، سابق انڈس واٹر کمشنرز شیراز جمیل ، آصف بیگ اور دیگر ماہرین نے شرکت کیں ۔ تمام شرکا ان امور پر مکمل طور پر متفق تھے کہ اگر انڈیا کی جانب سے کوئی پانی پر شرارت کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسی صورتحال میں کسی جذباتی رد عمل کی بجاۓ ہر اس فورم کو استعمال کرنا چاہئے جو کہ اس مسئلہ کے حل کیلئے مفید ثابت ہو سکتا ہے اور اس میں تو کوئی دو راۓ پیش ہی نہیں کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کیلئے پانی کے امور پر ذرا سی بھی کوتاہی غیر معمولی پریشانی کا باعث بن جاۓ گی اور اس سبب سے ہی پاکستان کسی آبی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے آخری حد تک جاۓ گا ۔ جب انڈیا کی جانب سے سنطاس معاہدہ کی معطلی کا اعلان ہوا تھا تو اس سے قبل ہی میں پاکستان کے آبی وسائل کے حوالے سے ایک ریسرچ ورک میں مشغول تھا کیوں کہ پاکستان کے صوبوں کے مابین بھی پانی کے امور پر ایک اختلاف رائے نظر آتا رہتا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ ہر صوبے کے عوام دوسرے صوبے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر وطن عزیز سے محبت رکھتے ہیں اس لئے ان کے تحفظات کو سمجھنا چاہئے کہ اصل مسئلہ کیا ہے ۔ اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے آبی وسائل صرف ان دونوں ممالک میں محدود نہیں ہے ۔ چین بنگلہ دیش اس میں ایک اہم کردار رکھتے ہیں ۔ قصہ کوتاہ جب انڈیا نے سنطاس معاہدے کی ” معطلی ” کا اعلان کیا تو ان ہی دنوں میری بیجنگ میں مقیم ایک چینی دوست سے چین کے آبی وسائل اور انڈیا سے ان وسائل کے تعلق پر گفتگو چل رہی تھی ۔ پھر انڈیا نے یہ اعلان کردیا اور یہ تو واضح ہے کہ
پانی کے مسائل سے نبر آزما صرف بر صغیر کی عوام ہی نہیں ہوگی بلکہ اس میں چین تو براہ راست ایک کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے گا اور کھلاڑی بھی ایسا جو پاکستان اور انڈیا دونوں سے بہت زیادہ وسائل رکھتا ہے ۔ میرا سوال تھا کہ آپ اس انڈین اقدام کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ چینی دوست نے کہا کہ بر صغیر کی سیاست میں جب سے مودی سرکار بطور کھلاڑی آئی ہے اس وقت سے وه بہت کچھ ایسا کر رہی ہے جو کہ کھوکھلے سیاسی نعرے اور اپنے متعصب حامیوں کو خوش کرنے بلکہ تماشا دکھاؤ اور حکومت کرو کہ فلسفہ پر صرف عمل درآمد جیسا ہے بھلا اگر پاکستان کا پانی روکنے کی کوئی کوشش کی گئی تو پاکستان اس کو چپ چاپ بیٹھا دیکھتا رہے گا ایسے سوچنے والے بھی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ اور اگر اس طرح ہی پانی روکا جانے لگا تو ایسی صورت میں کسی اور ملک کو انڈیا کیسے روک سکتا ہے کہ وہ انڈیا کی جانب بہتے پانی کو نہ روکے ۔ دریائے برهم پترا تبت سے بہتا ہوا انڈیا کے شمال مشرقی علاقوں سے گزر کر بنگله دیش میں پہنچتا ہے ۔ چین اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے تبت میں ایک سو سینتیس ارب ڈالر کی لاگت سے ایک بہت بڑا ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے ۔ یہ منصوبہ ہمالیہ کے اس حساس علاقہ میں ہے جہاں سے دریائے برهم پترا ایک سخت موڑ کاٹتے ہوئے انڈیا میں ارونا چل میں داخل ہوتا ہے ۔ چین کا یہ طے شدہ مؤقف ہے کہ چین اپنی صرف توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے اس اتنے بڑے منصوبے کو تیار کرنے کی جانب گامزن ہے اور ہم اپنے الفاظ پر پہرہ بھی دینگے مگر اگر انڈیا بین الاقوامی معاہدوں کی دھجیاں اڑاتا ہے ، تمام اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے پاکستان کو پانی کے معاملہ پر مشکلات کا شکار کرنے کی حکمت عملی اختیار کرتا ہے تو ایسی صورتحال میں اس کے پاس کیا جواز اور یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ کتنی طاقت ہوگی کہ وہ کسی اور ملک کو پانی کے معاملات کو صریح طور پر اپنے نکتہ نظر سے حل کرنے سے روک سکے ۔ انڈیا کی موجودہ قیادت صرف داخلی کامیابی بلکہ بلدیاتی سطح کی سیاسی سوجھ بوجھ سے انڈیا کو چلانا چاہتی ہے ، داخلی طور پر وه جو مرضی کچھ کرتے رہے ایک الگ مسئلہ ہے مگر بین الاقوامی امور کو کسی بچگانہ طرز سے نبٹنے کی کوشش کے غیر معمولی اثرات سے انڈیا کو واسطہ پڑے گا ۔ جب سے مودی سرکار اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھی ہے اس وقت سے ہی وه پانی بند کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور اس وقت سے ہی راقم الحروف کی جب کبھی بھی سفارت کاروں بالخصوص مغربی، امریکی اور انڈین سفارت کاروں سے ملاقات ہوئی تو ایک ہی بات کی کہ کشمیر کا مسئلہ کے ساتھ انڈیا نے اس کو پانی کا مسئلہ بھی بنا دیا ہے اور پاکستان کی خاص طور پر پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینوں کو بنجر بنانے کا مسئلہ ہے جو کہ پاکستان کسی صورت برداشت نہیں کرے گا ۔ انڈیا کی تازہ جارحیت نے یہ واضح کردیا ہے کہ انڈین حکمران جنون کی حالت میں کوئی بھی حرکت کرنے سے گریز نہیں کریں گے اور اس وجہ سے ضرورت اس کی ہے کہ جیسے دفاعی حکمت عملی میں پاکستان اور چین کا بہترین اشتراک عمل ہے اس طرح ہی آبی امور میں بھی چین پاکستان حکمت عملی مشترکہ نكات تلاش کرنے سے ہی برصغیر میں ہر طرح کا امن برقرار رکھا جا سکتا ہے اور اس موضوع پر نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کو فوری کام شروع کردینا چاہئے ۔