امن کا دھماکہ ۔

از محمّد مہدی ۔

2

جب دشمن جنگ مسلط کردے تو ماسواۓ مقابلے میں صف آرا ہونے کے اور کوئی گنجائش موجود نہیں رہتی ہے مگر اس کا یہ قطعی طور پر نتیجہ نہیں ہونا چاہئے کہ امن کی خواہش اور اس خواہش کو حقیقی روپ میں دیکھنے کی خواہش کو سرے سے ہی ترک کر دیا جائے ۔ اگر ایک فریق صرف اپنی سیاسی زندگی کیلئے پونے دو ارب انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے پر آماده ہو جاۓ تو دوسرا فریق بھی اس کے ہی ڈگر کو اختیار کرلے ۔ جنگ اور نفرت سواۓ تباہی لانے اور دل خراش داستانوں کے اور کوئی نتیجہ قوموں کے لئے نہیں لاتی ہے ۔ ارنسٹ ہیمنگوے معروف ناول نگار تھا اور اس کی وجہ شہرت پہلی جنگ عظیم پر اس کا انیس سو انتیس میں شائع کردہ شاہکار ناول” اے فیئر ویل ٹو آرمز” رہا ۔ ایک اطالوی فوجی اور برطانوی نرس کی داستان میں پہلی جنگ عظیم کے المیہ کو بیان کر دیا گیا ۔ اس ناول پر اٹلی اور نازی جرمنی میں پابندی بھی عائد رہی . اس کے چند فقرے مجھے بہت پسند ہے

” The world breaks everyone and afterward many are strong at the broken places. But those that will not break it kills. It kills the very good and the very gentle and the very brave impartially. If you are none of these you can be sure it will kill you too but there will be no special hurry.”

یہ چند فقرے بہت سی تلخ حقیقتوں کو سامنے لے آتے ہیں ۔ ذرا چشم تصور میں لائیے کے انڈیا کے پاگل پن کا علاج اگر پہلے روز اور پھر دس مئی کی رات کو نہ کردیا جاتا اور یہ جنگ خدا نخواستہ پھیل جاتی تو اس کے کتنے ہولناک نتائج سے عوام کو سامنا کرنا پڑتا چاہے وہ عوام وطن عزیز کی ہوتی یا سرحد پار ۔ حالاں کہ انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ انڈیا کی عوام کی تربيت اس انداز میں کردی گئی ہے کہ وہ پاکستان کی عوام کی تباہی دیکھنے کی اس حد تک مشتاق ہو چکی ہیں کہ ان کا چہرہ انڈین میڈیا کی جانب سے تیار کی گئی جھوٹ کی فیکٹری جس نے گوئیبلز کو بھی مات دے دی کے وقت بلکل عیاں ہو گیا تھا ۔ ان جھوٹی خبروں کو نشر کرنے کا کیا مطلب تھا ؟ مطلب بلکل واضح تھا کہ انڈیا کی عوام اپنی ٹی وی سکرینوں پر یہ مناظر دیکھنے کیلئے تڑپ رہے تھے کہ خدا نخواستہ پاکستان میں روتی عورتیں ، معصوم بچوں کی لاشیں اور تڑپتے انسانوں کی ان کے وہم و گمان کے مطابق لائن لگ چکی تھی اور اب انڈیا کے عوام اپنی ٹی وی سکرینوں پر اس بےبسی ، درندگی کو دیکھ کر لطف اندوز ہونا چاہ رہے تھے ۔ یہ انڈیا میں کس قسم کی ذہنیت کو تشکیل دیا جا چکا ہے ؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال کے نتائج مستقبل میں کیا برآمد ہو سکتے ہیں ؟ اور یہ کہ کس قسم کے نتائج حاصل کرنے کی غرض سے پاکستان کو اقدامات کرنے چاہئے ۔ پاکستان نے اپنے سفارتی وفود عالمی راۓ عامہ کو ہم خیال بنانے کی غرض سے دنیا بھر میں روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بہت مناسب اقدام ہے اور اس اقدام میں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ یہ افراد یہ صلاحیت رکھتے ہو کہ دنیا بھر میں سفارت خانے کی مدد کے بغیر یہ پالیسی میکرز ، قانون ساز اداروں کے اراکین اور تھنک ٹینکس سے وابستہ افراد سے ملاقات کر سکے . کیوں کہ اگر ان افراد کو سفارت خانے کی ہی ضرورت ہے تو پھر ان کو روانہ کرنے کا کیا فائدہ ہوگا ؟ اپنی یہ تجویز ایک اعلی ترین وفاقی کابینہ کی شخصیت کے سامنے بھی رکھی ہے اور ان سے ذکر کیا کہ ماضی میں جب انڈیا میں نرسمہا راؤ کی حکومت تھی اس وقت انڈیا نے واجپائی کو جینیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں روانہ کیا تھا اور ہماری طرف سے بھی افراد گئے تھے مگر پاکستان کو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے قرار داد واپس لینی پڑ گئی تھی ۔ اس ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں سفارت کاری کے میدان میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہئے ۔ یہ تو فوری نوعیت کے امور ہیں ، ایک مستقل نوعیت کی بھی حکمت عملی کو تیار کرنا چاہئے ۔ جب انڈیا کے ایٹمی دهماکوں کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے تو اس سے قبل واجپائی پاکستان کو ” تمیز ” سکھانے کی رکیک گفتگو کر رہے تھے مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا اور طاقت کا توازن برقرار رہنے کی وجہ سے ان کو خود چل کر لاہور آنا پڑا اور وه بد ترین کشیدگی میں سے امن کی جانب قدم بڑھا دیا گیا ، اب بھی ایسی ہی کوشش کم از کم پاکستان کی جانب سے ہونی چاہئے تا کہ دنیا دیکھ سکے کہ پاکستان تنازعات کے حل کیلئے کتنا مخلص ہے ۔ کیوں کہ اگر امن کا عمل شروع نہ کیا جا سکا تو موجودہ کشیدہ صورتحال بدستور برقرار رہے گی ۔ ممکن ہے کہ کوئی اعتراض کرے کہ انڈیا کے تازہ ترین اقدامات کے بعد اور شکست کی وجہ سے انڈیا سے اس وقت امن کے لئے کوئی چينل قایم کرنا نہایت مشکل امر ہے ۔ بات درست ہے مگر پاکستان کو ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور اس جنگ کے امکانی نقصانات سے نا صرف کے وطن عزیز کی عوام کو محفوظ رکھنے کیلئے بلکہ اپنے ہمسائے کی پرجا کو بھی کسی ہولناک صورت حال سے محفوظ رکھنے کیلئے ہر سعی بروئے کار لانی چاہئیں ۔ پاکستان نے اب بھی صرف فوجی تنصیبات پر حملہ کرکے اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ پاکستان سول آبادی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا ۔ لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انڈیا اپنی اس تازہ شکست سے بہت پیچ و تاب کھا رہا ہے اور خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان سے جنگ کے دوران جو اس کی کمزوریاں عیاں ہوئی ہیں وه ان پر قابو پا کر بہت جلدی جو کہ اگلے انڈین عام انتخابات سے قبل کا وقت ہوگا دوبارہ اسی قسم کی جنونیت دکھا دیگا اور بے جے پی کو اگلے عام انتخابات میں شکست سے کوئی ایسا ہی ایڈونچر بچا سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو یہ برصغیر تک

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.