“ماں” کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو ماں سے موسوم کر کے بطور “مدرز ڈے” منایا جاتا ہے۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس دن کا آغاز 1870ء میں ہوا جب جولیا وارڈ نامی عورت نے اپنی ماں کی یاد میں اس دن کو شروع کیا۔ یہ خاتون اپنے دور کی ایک ممتاز مصلح، انسانی حقوق کی کارکن، سوشل ورکر اور شاعرہ تھیں۔ 1877ء کو امریکہ میں پہلا مدرز ڈے منایا گیا۔ اس دن کو منانے کی باقاعدہ رسم کا آغاز 1907ء میں امریکی ریاست فلاڈلفیا میں ایم جاروس نامی سکول ٹیچر نے کیا۔ اس نے اپنی ماں این ماریا ریویس کی یاد میں اس دن کو منانے کی تحریک کو قومی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ تقریب امریکہ کے ایک چرچ میں ہوئی۔ اس وقت کے امریکی صدر وڈ رولسن نے اس تحریک پر ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ تب سے یہ دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو دنیا کے چوالیس سے زائد ممالک میں منایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں اس دن کو مدر سنڈے (Mother Sunday) بھی کہا جاتا ہے۔
امریکہ سمیت پورے یورپ میں بوڑھے والدین کو گھروں کی بجائے اولڈ ہومز میں رکھا جاتا ہے اس لیے لوگ اپنی ماؤں سے ملنے اس خصوصی دن اولڈ ہومز جاتے ہیں اور اپنی ماؤں کو سرخ پھولوں کے تحائف پیش کرتے ہیں۔ ماؤں کو اولڈ ہومز میں سارا سال مدرز ڈے کا انتظار رہتا ہے کیونکہ انہیں اس دن پورے ایک سال بعد اپنی کوکھ سے جنم لینے والی اولاد کو دیکھنے اور اس سے باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جن لوگوں کی مائیں فوت ہو چکی ہوتی ہیں وہ سفید پھول لے کر اپنی ماؤں کی قبروں پر جاتے ہیں اور ان قبروں پر سفید پھولوں کے گلدستے سجاتے ہیں۔ قبروں پر کچھ دیر خاموش کھڑے ہو کر ماؤں کو یاد کرتے ہیں اور اگلے سال پھر چند منٹ کے لیے آنے کو وہاں سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ مغربی ممالک جو کہ خود کو انسانی حقوق کا چیمپیئن کہتے ہیں وہ اپنی سگی ماں کے حقوق سال میں ایک دن کی ملاقات اور چند پھولوں سے ادا کر کے خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ وہ عملی طور پر ثابت کرتے ہیں کہ محبت، پیار، خلوص اور شفقت کو 365 حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ان کی ماں ان میں سے صرف ایک حصے کی مستحق ہے۔ یہاں ذمہ داری کی بات کرنا ہی فضول ہے کہ بوڑھے ماں باپ کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کا تصور ہی مغرب میں موجود نہیں ہے۔ والدین سے اولاد کا تعلق مغرب میں بہت کمزور ہے۔ مغرب میں مدرز ڈے کی افادیت کچھ بھی ہو لیکن تین سو پینسٹھ دنوں میں سے صرف ایک دن ماں کے نام کرنے والی اولاد کو کیا کہیں گے؟
اسلام میں ماں کا رشتہ عظمتِ انسانیت کی بنیاد ہے۔ ماں کا رشتہ تمام دنیاوی رشتوں میں سب سے اول گردانا جاتا ہے۔ ماں کی عظمت کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے رکھ دیا گیا ہے۔ اس کے لیے پرہیزگاری اور نیکوکاری کی شرط بھی نہیں رکھی گئی۔ ہر ماں کے پیروں کے نیچے اس کی اولاد کی جنت ہے۔ اس پیارے رشتے جیسا پرخلوص راحت بخشنے والا کوئی دوسرا رشتہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
” اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اورماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ ادب سے بات کیا کرو °
اور ان دونوں کے ساتھ نرم دلی سے عجزوانکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا°”
(بنی اسرائیل، 17: 23, 24)
حضورﷺ نے فرمایا باپ کے مقابلے میں ماں کا حق تین گنازیادہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہی کہ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی “یا رسول اللہ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟” آپﷺ نے فرمایا، “تیری ماں” پھر پوچھا “اس کے بعد کون؟” آپﷺ نے فرمایا “تیری ماں”۔ تیسری مرتبہ اس نے یہی سوال دوہرایا تو آپ نے پھر وہی جواب دیا، ” تیری ماں”۔ چوتھی مرتبہ جب اس نے پوچھا تو پیارے آقا حضرت محمد ﷺ نے فرمایا، “تیرا باپ”
درج بالا قرآنی آیات اور حدیثِ مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ والدین سال میں صرف ایک دن کی عزت و تکریم کے حق دار نہیں ہیں بلکہ سال کے تین سو پینسٹھ دن کے ہر لمحہ میں آپ پر ان کا حق ہے۔
اب ہمارے ہاں بھی فادرز ڈے اور مدرز ڈے منانے کا رواج چل نکلا ہے۔ اب یہاں بھی اولڈ ہومز بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں سو فیصد گھرانوں میں ماں کے قدموں کے نیچے جنت اور باپ کی رضا رب کی رضا سمجھی جاتی تھی لیکن مغرب کے اندھے پیروکار اور خود کو مہذب کہلانے کے دعویدار اپرکلاس کے لوگوں کی کچھ تعداد اس جنت اور رب کی رضا سے دامن بچاتی نظر آتی ہے۔ ماں باپ نہیں بدلے، ان کی چاہت، پیار اور خلوص وہی ہے۔ بقول عباس تابش
ایک مُدّت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
ہمارے ہاں آج بھی ماں عظیم ہے۔ آج بھی ماں کو رب کا روپ سمجھا جاتا ہے۔ ماں آج بھی پرخلوص محبت اور بے غرض وفا کا استعارہ ہے۔ ماں آج بھی گھر کے مشکل حالات سے سمجھوتہ کر کے صرف اولاد کی خاطر تنگی ترشی میں گزارا کر لیتی ہے۔ اولاد بڑھاپے میں بھی پہنچ جائے تو ماں کے لیے وہ کمسن ہی رہتی ہے اور اسے اس کی