عنوان: اب کی بار جواب پورا ہو گا!

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

4

قومیں کب تک خاموش رہیں کب تک صبر کو بزدلی سمجھا جائے کب تک دشمن کے جھوٹے دعوے، جھوٹی ویڈیوز اور جعلی پروپیگنڈے دنیا کو گمراہ کرتے رہیں یہ پاکستان ہے نہ بنگال ہے، نہ نیپال، نہ بھوٹان۔ ہم وہ قوم ہیں جو مہینوں کی بھوک سہہ سکتی ہے مگر سرحد پر ایک انچ پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ اور یہی تو بھارت کو گوارا نہیں۔

اس بار بھارت نے نیا پینترا بدلا۔ پہلگام کے واقعے کو بہانہ بنا کر ڈرونز بھیجے، جاسوسی کی، لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کی، سیالکوٹ، لاہور کے علاقوں میں دخل اندازی کی کوشش کی — اور جب پاکستان نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا تو بھارت کی چیخیں آسمان تک پہنچ گئیں۔ بھارت کی وزارتِ دفاع اب دنیا کو بتا رہی ہے کہ پاکستان نے حملہ کیا، پاکستان نے نقصان پہنچایا۔ مگر سوال یہ ہے: آغاز کس نے کیا .کیا ہمیشہ پاکستان کو خاموش تماشائی بنے رہنا چاہیے.

یہ پہلی بار نہیں کہ بھارت نے ایسا کیا۔ ہر چند سال بعد، انتخابات سے قبل، داخلی بحرانوں سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ جنگی جنون پیدا کرتا ہے۔ کارگل، پلوامہ، سرجیکل اسٹرائیک… سب کچھ ایک فلمی اسکرپٹ کی طرح دہرا رہا ہے۔ مگر اس بار پاکستان نے فیصلہ کر لیا ہے اب خاموش نہیں رہا جائے گا، اب دھمکیوں کے جواب بند کمروں سے نہیں، میدان سے آئیں گے۔

پاکستان کی فضائیہ نے ثابت کیا ہے کہ جدید ترین بھارتی طیارے بھی اُن کے سامنے کچھ نہیں۔ رافیل جیسے مہنگے جنگی جہاز جب پاکستانی میزائلوں کا نشانہ بنے تو بھارت کی دفاعی صلاحیتوں کا پردہ چاک ہو گیا۔ چین کی دی گئی لائن آف سائٹ فری ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان نے وہ کمال دکھایا جس کی توقع دنیا کو نہ تھی۔ اب یہ بات دشمن کے سینے پر نقش ہے کہ پاکستان نہ صرف تیار ہے بلکہ ہر ممکن حد تک جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن یاد رکھیے جنگ ہمارا شوق نہیں۔ ہم امن کے داعی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ مسئلے میز پر بیٹھ کر حل ہوں۔ لیکن اگر دشمن امن کی زبان نہ سمجھے، صرف گولی کی زبان جانتا ہو، تو پھر ہم بھی وہ زبان بولیں گے اور خوب سمجھا کر بولیں گے۔

دنیا کی بےحسی آج ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ امریکہ کا بیان محض علامتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی خاموشی ناقابلِ فہم ہے۔ یورپ کے انسانی حقوق کے علمبردار اس وقت تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ شاید وہ واقعی چاہتے ہیں کہ یہ خطہ ایک نئی آگ میں جھلس جائے تاکہ وہ پھر اپنے ہتھیار بیچ سکیں، مذاکرات کے بہانے مداخلت کر سکیں، اور ایک نئی “امن مہم” کی آڑ میں اپنے مفادات حاصل کر سکیں۔

یہ وہ وقت ہے جب پاکستان کو نہ صرف عسکری طور پر، بلکہ سفارتی محاذ پر بھی جارحانہ اور مربوط حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ ہمیں عالمی عدالت، او آئی سی، اور تمام اہم فورمز پر بھارت کا چہرہ بے نقاب کرنا ہو گا۔ ساتھ ہی، اندرونی سطح پر یکجہتی، اتحاد اور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کیونکہ دشمن صرف بارڈر پر نہیں، ہمارے بیچ بھی موجود ہےسازشوں، بےیقینی، اور خلفشار کی شکل میں۔

یہ جنگ کسی کی خواہش نہ تھی، لیکن اب اگر مسلط ہو رہی ہے تو یاد رکھنا ہو گا یہ صرف افواج پاکستان کی نہیں، پوری قوم کی جنگ ہے۔ ہر قلمکار، ہر استاد، ہر طالبعلم، ہر مزدور، ہر ماں، ہر بزرگ سب کو اس جنگی بیانیے کا ایک مضبوط ستون بننا ہو گا۔

ہمیں فتح صرف سرحد پر نہیں، بیانیے میں بھی حاصل کرنی ہے۔

اور یقین رکھیں، اس بار جواب پورا ہو گا.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.