کنیئرڈ کالج دو عزیز طالبات کے المناک سانحے پر سوگوار
لاھور میں موجود ایک معروف تعلیمی ادارے کی طالبات زندگی سے ھاتھ دھو بیٹھیں۔اشکبار آنکھوں اور واقعات کے مطابق کنیئرڈ کالج فار ویمن، جو لاہور کا ایک تاریخی اور ممتاز تعلیمی ادارہ ھے، 29 اپریل 2025 کو ایک Iیسے دکھ اور صدمے سے دوچار ہوا جس نے نہ صرف اس ادارے کی دیواروں کو غمزدہ کر دیا بلکہ پورے تعلیمی حلقے کو ذھنی اور جسمانی طور پر ہلا کر رکھ دیا۔ اس روز کنیئرڈ کالج کی دو ہونہار طالبات، عائدہ فہیم اور ایمان رو¿ف، جدا جدا مگر یکساں اندوہناک حالات میں زندگی کی بازی ہار گئیں۔یہ حادثات نہ صرف میرے لیے اور والدین و اہلِ خانہ کے لیے ناقابلِ بیان غم کا باعث بنے بلکہ پورے کالج کے لیے بھی ایک جذباتی زخم چھوڑ گئے، جو مدتوں تک تازہ رہے گا۔ ایسے واقعات تعلیمی اداروں میں بہت کم ہوتے ہیں، مگر جب ہو جائیں تو ان کے اثرات برسوں محسوس کیے جاتے ہیں۔عائدہ فہیم ایک ذہین، بااخلاق اور فعال طالبہ تھیں۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص محنتی کشش تھی جو ان کے ہم جماعتوں اور اساتذہ کو متاثر کرتی تھی۔ 29 اپریل کی صبح تقریباً 7:50 بجے، عائدہ کالج میں ایک بالکونی پر موجود تھیں کہ اچانک چکر آنے کے باعث وہ نیچے گر گئیں۔ کالج انتظامیہ نے فوری طور پر ایمرجنسی سروسز سے رابطہ کیا، اور ریسکیو 1122 دس منٹ میں پہنچ گئی۔ انھیں قریبی میڈیکو-لیگل اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی وفات کی تصدیق کی۔یہ واقعہ نہایت سرعت سے پیش آیا، اور کالج کی انتظامیہ، فیکلٹی اور طلبہ نے جس تیزی اور سنجیدگی سے ردعمل ظاہر کیا، وہ قابلِ تحسین ھے۔ تاہم، یہ افسوسناک حقیقت کہ ایک قیمتی جان اتنی جلدی ہم سے جدا ہو گئی، ناقابلِ برداشت ھے۔ایمان رو¿ف کا تعلق ایک ایسے حادثے سے تھا جو چند دن قبل، یعنی جمعرات کو ان کے گھر پر پیش آیا۔ وہ گھریلو حادثے میں شدید جھلس گئیں اور طبی نگہداشت کے تحت تھیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ھے کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا سکیں اور 29 اپریل کی صبح ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ افسوس۔۔۔۔ایمان کی زندگی کا اختتام ایک خاموش جدوجہد کے ساتھ ھوا، جس میں وہ تکلیف کے باوجود مضبوطی سے جمی رہیں۔ ان کے دوست اور اساتذہ انھیں ایک ہنس مکھ، نرم دل اور ہمدرد شخصیت کے طور پر یاد کرتے ہیں۔کسی بھی تعلیمی ادارے کے لیے یہ ایک ناقابلِ تصور المیہ ہوتا ھے کہ دو طالبات ایک ہی دن میں دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ اس روز کنیئرڈ کالج کی فضائ نہایت سوگوار تھی۔ لیکچرز روک دیے گئے، اور کالج کے تمام شعبوں میں خاموشی چھا گئی۔ ہر چہرہ افسردہ اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔کالج انتظامیہ نے فوراً پریس ریلیز جاری کی جس میں دونوں طالبات کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔ انتظامیہ نے اس موقع پر طالبات، اساتذہ، اور عملے کی ہمدردی، ضبط اور تعاون کو سراہا اور ان کی اخلاقی یکجہتی کو کنیئرڈ کالج کی اصل روح قرار دیا۔والدین کے لیے یہ ایک ایسا زخم ھے جو وقت کے ساتھ بھی شاید بھر نہ سکے۔ ان کی امیدیں، خواب اور دعائیں ان بچیوں کے ساتھ ج±ڑی ہوئی تھیں۔ ایک ماں کے لیے اپنی بیٹی کی جدائی ناقابلِ برداشت ھے، اور ایک باپ کے لیے بیٹی کا جنازہ اٹھانا شاید سب سے بڑا امتحان۔ او میرے خدا۔۔۔کالج انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی کہ وہ والدین اور اہلِ خانہ کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی، نہ صرف قانونی اور طبی معاملات میں، بلکہ نفسیاتی اور جذباتی سطح پر بھی۔کالج کی طالبات نے ان واقعات کے بعد سماجی میڈیا پر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ کئی نے عائدہ اور ایمان کی یادیں شیئر کیں، ان کے ساتھ گزارے لمحوں کو بیان کیا، اور ان کے لیے دعائیں کیں۔ کچھ طالبات نے پوسٹ کیاکہ یہ صرف دو زندگیوں کا ضیاع نہیں بلکہ پورے تعلیمی ماحول میں ایک خلا پیدا ہو گیا ھے۔اساتذہ نے بھی ان طالبات کو تعلیمی و ذاتی طور پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ ان کے مطابق یہ دونوں بچیاں نہ صرف ذہین تھیں بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی اپنے ساتھیوں کے لیے مثال تھیں۔کنیئرڈ کالج نے فوری طور پر دونوں واقعات کی مکمل تحقیقات میں تعاون کیا اور متعلقہ اداروں کے ساتھ ہر ممکن قانونی معاونت فراہم کی۔ اس کے ساتھ ہی کالج نے ذہنی صحت کے حوالے سے ایک خصوصی کونسلنگ پروگرام کا اعلان کیا، تاکہ دیگر طالبات اس سانحے سے پیدا ہونے والے صدمے سے بہتر طریقے سے نمٹ سکیں۔یہ اعلان اس بات کی نشاندہی کرتا ھے کہ ادارہ اپنی طالبات کی جسمانی و ذہنی فلاح کو اولین ترجیح دیتا ھے، اور مستقبل میں ایسے کسی سانحے کی روک تھام کے لیے مزید احتیاطی اقدامات اٹھائے گا۔یہ واقعات نہ صرف افسوسناک ہیں بلکہ لمح? فکریہ بھی ہیں۔ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ادارے میں موجود حفاظتی اقدامات کتنے مو¿ثر ہیں؟ کیا ہمارے تعلیمی نظام میں ذہنی صحت کے حوالے سے کافی آگاہی موجود ھے؟ کیا طلبہ کے ساتھ ایسا تعلق قائم ھے کہ وہ اپنی پریشانیوں کو کھل کر بیان کر سکیں؟یہ ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے نہ صرف تعلیمی معیار کو بلند کریں بلکہ ایک محفوظ، ہمدرد اور معاون ماحول فراہم کریں جہاں ہر طالب علم خود کو محفوظ اور بااختیار محسوس کرے۔ میری بیٹیوں کی طرح عائدہ فہیم اور ایمان راو¿ف کی جدائی ایک ایسا زخم ھے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ دو روشن چراغ جو علم کی روشنی کے سفر پر تھے، بہت جلد بجھ گئے۔ لیکن ان کی یادیں، ان کی مسکراہٹیں اور ان کی خدمات ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی۔کنیئرڈ کالج کے لیے یہ وقت سوگ اور خود احتسابی کا ھے۔ اس ادارے نے ہمیشہ عورتوں کو بااختیار بنانے کا مشن اپنایا ھے، اور یہ سانحات اسے مزید مضبوط اور حساس بنائیں گے تاکہ وہ اپنے طلبہ کی بہتر نگہداشت کر سکے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عائدہ اور ایمان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، ان کے والدین کو صبرِ جمیل عطا کرے، اور ہمیں ایسے سانحات سے بچنے کی توفیق دے۔
- لاھور میں موجود ایک معروف تعلیمی ادارے کی طالبات زندگی سے ھاتھ دھو بیٹھیں۔اشکبار آنکھوں اور واقعات کے مطابق کنیئرڈ کالج فار ویمن، جو لاہور کا ایک تاریخی اور ممتاز تعلیمی ادارہ ھے، 29 اپریل 2025 کو ایک Iیسے دکھ اور صدمے سے دوچار ہوا جس نے نہ صرف اس ادارے کی دیواروں کو غمزدہ کر دیا بلکہ پورے تعلیمی حلقے کو ذھنی اور جسمانی طور پر ہلا کر رکھ دیا۔ اس روز کنیئرڈ کالج کی دو ہونہار طالبات، عائدہ فہیم اور ایمان رو¿ف، جدا جدا مگر یکساں اندوہناک حالات میں زندگی کی بازی ہار گئیں۔یہ حادثات نہ صرف میرے لیے اور والدین و اہلِ خانہ کے لیے ناقابلِ بیان غم کا باعث بنے بلکہ پورے کالج کے لیے بھی ایک جذباتی زخم چھوڑ گئے، جو مدتوں تک تازہ رہے گا۔ ایسے واقعات تعلیمی اداروں میں بہت کم ہوتے ہیں، مگر جب ہو جائیں تو ان کے اثرات برسوں محسوس کیے جاتے ہیں۔عائدہ فہیم ایک ذہین، بااخلاق اور فعال طالبہ تھیں۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص محنتی کشش تھی جو ان کے ہم جماعتوں اور اساتذہ کو متاثر کرتی تھی۔ 29 اپریل کی صبح تقریباً 7:50 بجے، عائدہ کالج میں ایک بالکونی پر موجود تھیں کہ اچانک چکر آنے کے باعث وہ نیچے گر گئیں۔ کالج انتظامیہ نے فوری طور پر ایمرجنسی سروسز سے رابطہ کیا، اور ریسکیو 1122 دس منٹ میں پہنچ گئی۔ انھیں قریبی میڈیکو-لیگل اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی وفات کی تصدیق کی۔یہ واقعہ نہایت سرعت سے پیش آیا، اور کالج کی انتظامیہ، فیکلٹی اور طلبہ نے جس تیزی اور سنجیدگی سے ردعمل ظاہر کیا، وہ قابلِ تحسین ھے۔ تاہم، یہ افسوسناک حقیقت کہ ایک قیمتی جان اتنی جلدی ہم سے جدا ہو گئی، ناقابلِ برداشت ھے۔ایمان رو¿ف کا تعلق ایک ایسے حادثے سے تھا جو چند دن قبل، یعنی جمعرات کو ان کے گھر پر پیش آیا۔ وہ گھریلو حادثے میں شدید جھلس گئیں اور طبی نگہداشت کے تحت تھیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ھے کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا سکیں اور 29 اپریل کی صبح ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ افسوس۔۔۔۔ایمان کی زندگی کا اختتام ایک خاموش جدوجہد کے ساتھ ھوا، جس میں وہ تکلیف کے باوجود مضبوطی سے جمی رہیں۔ ان کے دوست اور اساتذہ انھیں ایک ہنس مکھ، نرم دل اور ہمدرد شخصیت کے طور پر یاد کرتے ہیں۔کسی بھی تعلیمی ادارے کے لیے یہ ایک ناقابلِ تصور المیہ ہوتا ھے کہ دو طالبات ایک ہی دن میں دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ اس روز کنیئرڈ کالج کی فضائ نہایت سوگوار تھی۔ لیکچرز روک دیے گئے، اور کالج کے تمام شعبوں میں خاموشی چھا گئی۔ ہر چہرہ افسردہ اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔کالج انتظامیہ نے فوراً پریس ریلیز جاری کی جس میں دونوں طالبات کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔ انتظامیہ نے اس موقع پر طالبات، اساتذہ، اور عملے کی ہمدردی، ضبط اور تعاون کو سراہا اور ان کی اخلاقی یکجہتی کو کنیئرڈ کالج کی اصل روح قرار دیا۔والدین کے لیے یہ ایک ایسا زخم ھے جو وقت کے ساتھ بھی شاید بھر نہ سکے۔ ان کی امیدیں، خواب اور دعائیں ان بچیوں کے ساتھ ج±ڑی ہوئی تھیں۔ ایک ماں کے لیے اپنی بیٹی کی جدائی ناقابلِ برداشت ھے، اور ایک باپ کے لیے بیٹی کا جنازہ اٹھانا شاید سب سے بڑا امتحان۔ او میرے خدا۔۔۔کالج انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی کہ وہ والدین اور اہلِ خانہ کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی، نہ صرف قانونی اور طبی معاملات میں، بلکہ نفسیاتی اور جذباتی سطح پر بھی۔کالج کی طالبات نے ان واقعات کے بعد سماجی میڈیا پر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ کئی نے عائدہ اور ایمان کی یادیں شیئر کیں، ان کے ساتھ گزارے لمحوں کو بیان کیا، اور ان کے لیے دعائیں کیں۔ کچھ طالبات نے پوسٹ کیاکہ یہ صرف دو زندگیوں کا ضیاع نہیں بلکہ پورے تعلیمی ماحول میں ایک خلا پیدا ہو گیا ھے۔اساتذہ نے بھی ان طالبات کو تعلیمی و ذاتی طور پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ ان کے مطابق یہ دونوں بچیاں نہ صرف ذہین تھیں بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی اپنے ساتھیوں کے لیے مثال تھیں۔کنیئرڈ کالج نے فوری طور پر دونوں واقعات کی مکمل تحقیقات میں تعاون کیا اور متعلقہ اداروں کے ساتھ ہر ممکن قانونی معاونت فراہم کی۔ اس کے ساتھ ہی کالج نے ذہنی صحت کے حوالے سے ایک خصوصی کونسلنگ پروگرام کا اعلان کیا، تاکہ دیگر طالبات اس سانحے سے پیدا ہونے والے صدمے سے بہتر طریقے سے نمٹ سکیں۔یہ اعلان اس بات کی نشاندہی کرتا ھے کہ ادارہ اپنی طالبات کی جسمانی و ذہنی فلاح کو اولین ترجیح دیتا ھے، اور مستقبل میں ایسے کسی سانحے کی روک تھام کے لیے مزید احتیاطی اقدامات اٹھائے گا۔یہ واقعات نہ صرف افسوسناک ہیں بلکہ لمح? فکریہ بھی ہیں۔ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ادارے میں موجود حفاظتی اقدامات کتنے مو¿ثر ہیں؟ کیا ہمارے تعلیمی نظام میں ذہنی صحت کے حوالے سے کافی آگاہی موجود ھے؟ کیا طلبہ کے ساتھ ایسا تعلق قائم ھے کہ وہ اپنی پریشانیوں کو کھل کر بیان کر سکیں؟یہ ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے نہ صرف تعلیمی معیار کو بلند کریں بلکہ ایک محفوظ، ہمدرد اور معاون ماحول فراہم کریں جہاں ہر طالب علم خود کو محفوظ اور بااختیار محسوس کرے۔ میری بیٹیوں کی طرح عائدہ فہیم اور ایمان راو¿ف کی جدائی ایک ایسا زخم ھے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ دو روشن چراغ جو علم کی روشنی کے سفر پر تھے، بہت جلد بجھ گئے۔ لیکن ان کی یادیں، ان کی مسکراہٹیں اور ان کی خدمات ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی۔کنیئرڈ کالج کے لیے یہ وقت سوگ اور خود احتسابی کا ھے۔ اس ادارے نے ہمیشہ عورتوں کو بااختیار بنانے کا مشن اپنایا ھے، اور یہ سانحات اسے مزید مضبوط اور حساس بنائیں گے تاکہ وہ اپنے طلبہ کی بہتر نگہداشت کر سکے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عائدہ اور ایمان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، ان کے والدین کو صبرِ جمیل عطا کرے، اور ہمیں ایسے سانحات سے بچنے کی توفیق دے۔