ریلوے کو بھی پی آئی اے کی طرح خسارے سے نکالنے کی نوید اور روٹھے مسافروں کو واپس لانے کی ضرورت

آج کا اداریہ

10

وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے کہا ہے کہ ریلوے کی بہتری کے لئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، 10 ٹرینوں کو آؤٹ سورس کرنے کے لیے پلان طلب کیا ہے۔
لاہور کینٹ ریلوے سٹیشن پر فریٹ ٹرین کے افتتاح کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے نے کہا کہ ریلوے ہمارا سٹریٹجک اثاثہ ہے، ریلوے کی بہتری کے لیے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، تمام سٹیشنز کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ ریلوے میں جو اہداف طے کیے تھے وہ حاصل کرنے ہیں، چھوٹی ٹرینیں درآمد کی جائیں گی جو 6 ماہ میں پاکستان پہنچ جائیں گی اور انہیں بھی روٹس پر چلایا جایا جائے گا، کوشش ہے کہ فریٹ ٹرینوں کی تعداد ایک سال میں دگنی کردیں۔ٹرینوں کو آؤٹ سورس کرنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 10 ٹرینوں کو آؤٹ سورس کےلیے پلان طلب کیا ہے، انہوں نے بتایا کہ لاہور اور راولپنڈ ی سٹیشن کی ذمے داری حکومت پنجاب نے لے لی ہے اور وہ ان سٹیشنز کو دنیا کے جدید ترین ریلوے سٹیشنز کے ہم پلہ بنائے گی۔ پنجاب حکومت کے تعاون سے ریلوے زمینوں کو قبضوں سے واگزار کرائیں گے اور پنجاب بھر میں ریلوے لائنوں کے ساتھ شجر کاری کی جائے گی۔
پاکستان ریلوے میں حادثات تو کم نہ ہو سکے لیکن ہر بدلتے سال اخراجات میں اربوں روپے اضافہ ریکارڈسال 2013 سے 2023 تک ریلوے کے آپریشنل معاملات میں 842 ارب خرچ ہوئے جبکہ 458 ارب ریونیو اکٹھاہوا،سال 2013-14 میں ٹوٹل اخراجات 55 ارب، ریونیو 23 ارب ہوا اور نقصان 33 ارب ریکارڈ، سال 2014-15 میں اخراجات 59 ارب ہوا، ریونیو 32 ارب رہا، نقصان 27 ارب کا ریکارڈ ہوا، سال 2015-16 میں اخراجات 63 ارب ہوئے اور ریونیو 37 ارب اکٹھا ہوا، اور 27 ارب کا نقصان ریکارڈ ہوا،سال 2016 -17 میں اخراجات 80 ارب جبکہ ریونیو 40 ارب اکٹھا ہوا، چالیس ارب ہی نقصان ریکارڈ، سال 2017 -18 میں اخراجات 86 ارب اور ریونیو 50 ارب اکھٹا ہوا، 36 ارب نقصان ریکارڈ، سال 2018- 19 میں اخراجات 86 ارب ہوئے جبکہ 55 ارب ریونیو اکٹھا ہوا، نقصان 32 ریکارڈ، سال 2019- 20 میں اخراجات 97 ارب ہوئے جبکہ ریونیو 48 ارب ہوا، نقصان 49 ارب ریکارڈ، سال 2020-21 میں اخراجات 96 ارب ہوئے جبکہ ریونیو 49 ارب اکٹھا ہوا، نقصان 47 ارب ریکارڈ، سال 2021-22 میں اخراجات 108 ارب اور ریونیو 60 ارب رہا، نقصان 47 ارب ریکارڈ، سال 2022 – 23 میں اخراجات 112 ارب ہوئے اور ریونیو 64 ارب ہوا، نقصان 48 ارب کا ریکارڈ، سال 2024 میں ریلوے نے 88 ارب ریونیو اکٹھا کیا، رپورٹ اربوں روپے اخرجات میں اضافے کے باوجود حادثات میں کمی نہیں آ سکی۔جب وفاقی وزیر کی توجہ اس
رپورٹ کی جانب مبذول کروائی گئی تو انہوں نے بتایا کہ گو کہ ریلوے مسافروں میں کمی پائی گئی لیکن ریونیو میں گزشتہ برس اضافہ ہوا کوشش ہے کہ روٹھے مسافروں کو واپس لایا جائے وفاقی وزیر کے سامنے ایک اور رپورٹ بھی رکھی گئی جس میں
پاکستان ریلوے کی 3 سوسے لیکر چار سو کے قریب مسافر اور مال بردار ٹرینیں لاپتا بتائی گئیں جوجن ریلوے ٹریکس پر یہ ٹرینیں چلا کرتی تھی، ان پر قبضہ ہو چکا ہے، پٹریاں چوری ہوچکی ہیں اور ٹرینوں کی بندش سے حکومت کو پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر ہر سال اربوں ڈالر زائد خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔

ا اعداد وشمار کے مطابق1980 تک پاکستان ریلوے ملک بھر میں 400 ساڑھے چار سو مسافر اور مال بردار ٹرینیں چلایا کرتا تھا جن کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتے ہوتے 100سے 110 تک رہ گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوے کے ذریعے سالانہ چار سے ساڑھے 4 کروڑ مسافر آج بھی سفر کرتے ہیں جب کہ بڑے بڑے امپورٹرز اور ایکسپورٹر اپنے سامان کی نقل و حمل کے لیے ریلوے کو ہی ترجیح دیتے ہیں مگر ریلوے کو حکومتوں کی طرف سے سپورٹ نہ ملی، کھربوں روپے سے روڈز بنائے گئے لیکن ریلوے ٹریک کو بڑھایا نہیں گیا بلکہ جو ٹریک برطانوی دورے حکومت میں بنا تھا اس کو بھی ختم کر دیا گیا۔

ٹرینیں بند ہونے سے نہ صرف روڈ انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوا بلکہ حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ میں تین سے چار ارب ڈالر کا اضافہ کرنا پڑا کیونکہ ٹرینیں بند ہونے سے ٹرانسپورٹ مافیا نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔

اب کراچی سے خیبر تک بڑی بڑی لگزری فلائینگ کوچوں میں ہزاروں مسافر روزانہ مہنگا ترین سفر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ تجارتی سامان بڑے بڑے کنٹینروں میں سٹرکوں کے ذریعے لے جایا اور لایا جاتا ہے اس کی وجہ سے ایک تو ماحولیات پر اثر پڑتا ہے دوسرا پاکستان کو اربوں روپے سے فیول منگوانے پر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

ریلوے ذرائع کا کہنا یہ کہ اگر ریلوے کو ترقی دی جائے تو تین سے چار ارب ڈالر کی سالانہ بچت ہو سکتی ہے، 1980 سے 85 تک 400 سے ساڑھےچار سو تک ٹرینیں چلتی تھیں تو اس وقت بھی پبلک ٹرانسپورٹ اور گوڈز ٹرانسپورٹ چلتی تھی لیکن 70 فیصد لوڈ ریلوے نے اٹھا رکھا تھا، اس وجہ سے حکومت کو تیل بھی کم امپورٹ کرنا پڑتا تھا اور ماحول بھی الودہ نہیں ہوتا تھا۔

رپورٹ کے مطابق اب ہزاروں لاکھوں ٹرک بسیں لگزری کو چیز گاڑیاں اور دیگر ٹرانسپورٹ چلتی ہے جس کی وجہ سے ایئر انڈیکس خراب سے خراب ہوتا جا رہا ہے ماحولیاتی الودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔اس سوال پروفاقی وزیر ریلوے نے بتایا کہ شیڈول کے مطابق لاہور میں مزید چنددن اور رکیں گے پھر آگے دیگر اسٹیشنز کادورہ کرینگے ان دوروں کا مقصد ایسی چیزوں کی روک تھام ہے جس سے ادارے کو نقصان پہنچا یا پہنچ رہا ہے انہوں نے بتایا کہ ریلوے کے 14 سکول آؤٹ سورس کرنے جارہے ہیں جس سے ان سکولوں کے معیار میں بہتری آئے گی۔ ریلوے کے 8 ہسپتال بھی آؤٹ سورس کئے جائیں گے، ہسپتالوں کی آؤٹ سورسنگ اور دیگر اقدامات سے سالانہ ڈیڑھ ارب روپے کی بچت ہوگی۔ ریلوے کی بہتری کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے اور اسے منافع بخش ادارہ بنائیں گے، ریلوے کے تمام منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔

یادرہے پاکستان کا ریلوے ٹریکس سات ہزار 791 کلومیٹر ہے جس میں سے ایک ہزار43 کلومیٹر ڈبل ٹریک ہے جبکہ 225 کلومیٹر برقی تنصیبات کا نیٹ ورک تھا جو خانیوال سے لاہور تک تھا وہ بھی خراب ہو چکا ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.