عوام کو شعور دینے والے شاعر ۔۔استاد دامن

تحریر:ظفر اقبال ظفر

0

پنجابی کا کھلا پن سیاسی و سماجی طنز، برجستگی روانی، حقیقت، سادگی اور احساس میں لپٹے ان گنت معنی سے بھرپور شعر کہنے والے استاد دامن کا اصلی نام چراغ دین عرف چاغو والد کا نام میراں بخش والدہ کا نام کریم بی بی ہے۔انکی آخری آرام گاہ کے کتبے پر تاریخ پیدائش یکم جنوری بروز ہفتہ 1910درج ہے، وہ اندرون لاہور چوک مستی میں پیدا ہوئے۔ تیرہ سال کی عمر میں ان کامحنتی غریب درزی گھرانہ چوک مستی سے باغبان پورہ منتقل ہو گیا۔ان کے والد میراں بخش لوہاری دروازے کے باہر ایک دکان پر درزی کا کام کرتے تھے ۔استاد دامن کا ایک بھائی اور ایک بہن تھی جو ان سے عمر میں بڑے تھے۔ استاد دامن کا رنگ گوارا، گرج دار آواز،سر کے بال استرے سے صاف کروا کے رکھتے، دھوتی، کرتہ نیچے سلوکہ کندھے پہ چادر ،سر پر پگڑی نما پٹکا ،تن زیب رکھتے تھے بچپن سے ہی پڑھائی کے شوقین ساندہ دیو سماج سکول لاہور سے میٹرک کرکے دیال سنگھ کالج لاہور میں داخلہ لیا ،مگر چھ ماہ بعد ہی والد کی بیماری اور گھریلوحالات کے پیش نظرتعلیم جاری نہ رکھ سکے ۔قرآن پاک حفظ کیا،والد کی خواہش و کوشش تھی کہ ان کا بیٹا ان کی زندگی میں ہی سلائی کا سارا ہنر سیکھ کر روزی روٹی کمانے کے قابل ہو جائے۔ والد کی تکمیل خواہش اور ضروریات زندگی کے وسائل بڑھانے کے لیے انہوں نے استاد وہاب نامی ٹیلر کی شاگردی میں کوٹ، پتلون، اجکن ،شلوار قیمص بنانے میں کمال مہارت حاصل کی، اُس وقت شلوار قمیص کی سلائی دس آنے ہوتی تھی مگر استاد دامن دس روپے لیتے تھے کیونکہ وہ نلکی کے دھاگے کی بجائے کپڑے کے اندر سے دھاگہ نکال کر سوٹ سلائی کرتے تھے جس کی وجہ سے سلائی نظر نہیں آتی تھی۔ آزادی کی بڑی بڑی تحریکوں کے راہنما لیڈران سے اپنے کپڑے سلواتے تھے،انہوں نے اپنے دور میں تجویز خطی کے بڑے شاعر باؤ ہمدم کی شاگردی میں اپنی شاعری کو مزید نکھارا مگر استاد دامن پیدائشی شاعر تھے۔ انہوں نے دس برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا، ان کے والد میراں بخش خود صوفیانہ شاعری کے دیوانے تھے جنہیں ہیر وارث شاہ اور فضل شاہ کی سوہنی زبانی یاد تھی جبکہ استاد دامن بھی ہیر وارث شاہ کی بہر میں لکھتے پہلا مشاعرہ پندرہ سالہ عمر میں باغبان پورہ لاہور میں پڑھاجس کی صدارت استاد دامن سے اپنے کپڑے سلوانے والے کانگرس رہنما میاں افتخار الدین نے کی، اس موقع پر سردار گیانی گرمکھ سنگھ مسافر نے صدر مشاعرہ سے کہا کہ استاددامن نے بہت کمال شعر پڑھے ہیں۔ انہیں سو روپیہ انعام دیا جائے پہلے مشاعرہ میں ہی نامور استاد شاعروں میں اپنا آپ منوانا اور انعام پانا استاد دامن کے فن شاعری کا قد بتاتا ہے۔استادامن نے عطا اللہ شاہ بخاری ؒ جیسے لوگوں کی موجودگی میں سیاسی سماجی مذہبی جلسوں میں اپنا کلام پڑھا اور وہ عوام کے دلوں کی آواز بن کر اُبھرتے چلے گئے ،پنجابی کے علاوہ کسی اور زبان میں شعر نہیں کہے جبکہ وہ فارسی، عربی، روسی، اردو ہندی ،انگلش اور سنسکرت زبان پر بھی عبور رکھتے تھے ۔استاد دامن نے شاعری کی فنی خوبیوں پر قدرت رکھنے کی بدولت اہل علم و فن سے استاد کا خطاب حاصل کیا ۔استاد دامن غریبوں مظلوموں مزدروں کسانوں جیسے پسے ہوئے طبقوں کے لیے آواز اُٹھانے اور استحصالی طبقوں کی مزحمت کرنے والے بااثرشاعرتھے۔
میرے ہنجواں دا پانی پی پی کے
ہری بھری اے بنجر زمین ہو جائے
ایدے منہ تے سرخی چاہی دی اے
میرے لہو توں پاوئیں رنگین ہو جائے
استاد دامن کی سب سے بڑی خوبی ان کی فلبدی گوئی تھی وہ موقعوں کی مناسبت سے چند لمحوں میں اشعار کی مالا پرو دیتے تھے آزادی کے کچھ عرصے بعد انہوں نے دہلی میں منعقد مشاعرے میں شرکت کرکے یہ نظم پڑھی۔
ایناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا
ہوئے تسی وی او ہوئے ایسی وی آں
کج امید اے زندگی مل جائے گی
موئے تسی وی او موئے اسی وی آں
جیوندی جان ای موت دے منہ اندر
ڈوبے تسی وی او ڈوبے اسی وی آں
جاگن والیا رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او سوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پیی دسدی اے
روئے تسی وی او روئے اسی وی آں
انسانی جان پر آزادی کے نام سے ٹوٹنے والی قیامت کے شکار حاضرین مشاعرہ بے اختیار رونے لگے ،مشاعرے میں موجودبھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو بھی آبدیدہ ہو گئے، انہوں نے استاد دامن کو آزادی کے شاعر کے خطاب سے نوازتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مستقل طور پر بھارت میں قیام پزیر ہو جائیں مگرانہوں نے جواب دیا کہ میرا وطن پاکستان ہے ،میں لاہور میں ہی رہو ں گا،بیشک جیل میں ہی کیوں نہ رہوں، 1962میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو لاہور آئے ائرپورٹ پر اترے تو انہوں نے پاکستانی گورنر اختر حسین سے کہا کہ میں استاد دامن سے ملنا چاہتا ہوں مگر ادب کی دولت سے ناآشنا گورنر اختر حسین نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ کو ن ہے استاد دامن؟اس درویش سے ناواقف حکمرانوں کی موجودگی کے باوجوداس محب وطن شاعر نے ساری زندگی غربت و افلاس میں گزارنے کے باوجود پاکستان کے ہی گیت گائے، اس پاک دھرتی کو نفرتوں، بے ایمانیوں، عیاریوں سے پاک کرنے کے لیے عوام میں اپنی شاعری کے ذریعے انسانی حقوق کی صدائیں بلند کیں اورامن و محبت کے پھول نچھاور کرتے رہے اور ساتھ ساتھ اُن برائیوں کی بھی مزاحمت کرتے رہے جو عوامی مفاد کے نقصان میں تھیں استاددامن نے حکمرانوں کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بھرپور تنقید کے ساتھ عوامی شعور کو بیدا ر کیا،عوامی حقوق کے کھوکھلے نعروں اور ملکی زوال پہ لکھتے ہیں۔
کھائی جاؤ کھائی جاؤ بھیت کنے کھولنے
وچو وچی کھائی جاؤ اُتوں رولا پائی جاؤ
انا مارے انی نوں کسن وجے تھمی نوں
جنی تواتھوں انی پیندی اُنی انی پائی جاؤ
کھائی جاؤ بھئی کھائی جاؤ بھیت کنے کھولنا
لڑکی والوں پر رسم و رواج اوربارات کے کھانے کا بوجھ ڈالنے کی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.