نواب ناظم کے۔۔۔۔ہشت درویش

روبرو۔۔۔۔محمد نوید مرزا

1

نواب ناظم معروف شاعر ،ادیب اور صحافی کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔علامہ ذوقی مظفر نگری مرحوم کے شاگرد ہونے کے ناطے میرے استاد بھائی بھی ہیں۔ناظم صاحب والد صاحب شاعر درویش بشیر رحمانی کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔نواب ناظم کئی شعری و نثری کتب تخلیق و مرتب کر چکے ہیں۔حال ہی میں ان کی تازہ تالیف ،،ہشت درویش،، منظر عام پر آئی ہے،جو اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک منفرد اور جامع کتاب ہے۔نواب ناظم نے اس کتاب کے ذریعے اردو شاعری کے آٹھ درویشوں کی زندگی کے نشیب و فراز اور ان کے ادبی کارناموں پر انتہائی خوبصورتی اور دلائل سے گفتگو کی ہے۔کتاب میں نواب ناظم کی اپنی تحریر کے علاؤہ کئی نامور شخصیات کی تحریریں بھی شامل ہیں۔یوں نواب ناظم اس کتاب کے بیک وقت مصنف اور موءلف ہیں۔کتاب میں اسلم کولسری،اظہار شاہین ،اختر رومانی اور بشیر رحمانی مرحوم اور زندہ شخصیات میں لطیف پیامی،جاوید قاسم،انوار قمر اور صادق جمیل جیسے ادبی درویشوں کا ذکر خیر ہے۔ہشت درویش کا انتساب نواب ناظم نے اپنی اہلیہ اور اپنے بیٹے بیٹیوں کے نام کیا ہے۔عرض حال میں مصنف نے کتاب لکھنے کی پوری روداد قلم بند کی ہے۔شاعری کے ان درویشوں کے بارے میں لکھتے ہیں،،جب میں غورسے دیکھتا ہوں،ان میں ہر ایک ،ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے اور بغور دیکھا جائے تو ان میں ہر درویش اپنی الگ الگ داستان کی کھلی کتاب ہے،،
ان کھلی کتابوں کے بارے میں نواب ناظم نے بہت عمدگی سے اپنے خیالات قلم بند کئے ہیں۔کتاب کے دیباچے کے بعد انھوں نے ایک طویل تحریر لفظ درویش کے معنی و مفہوم سے آشنا کرنے کے لئے بھی لکھی ہے،جو عام قاری کے لئے بہت اہم ہے ،لکھتے ہیں،،یاد رہے کہ لفظ درویش ،لفظ دل آویز سے وجود میں آیا ہے۔جس کے معنی ہیں دلکش ،دل کو بھانے والا،کھینچنے والا جب کہ لفظ درویش کے اور متعدد نام اور وصفی صفات ہیں۔تارک دنیا،خدا رسیدہ،پرہیز گار،بے مایہ،تہی دامن،صاحب معرفت اور مذہبی فقیر ایسے نام اور صفات مخصوصہ کے ساتھ درویش کو مختلف نام دئیے گئے ہیں،،
ان کی یہ باتیں اپنی جگہ درست ہیں،تاہم اصطلاح میں سالک،صوفی،رشد و ہدایت پانے والا،زاہد،قلندر ،گوشہ نشین ،تارک الدنیا اور بے نیازی کی زندگی اختیار کرنے والا بھی درویش ہی کہلاتا ہے۔
آگے چل کر درویش کہانی لکھنے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں،،چونکہ یہ آٹھوں کے آٹھ درویش صاحب قلم اور صاحب کتاب ہیں اور بلاشبہ ان کے سروں پر درویشی کے علم کا سایہ ہے،،
نواب ناظم نے جن درویشوں کو اپنی کتاب ہشت درویش کا حصہ بنایا ہے ،وہ حقیقی معنوں میں شعر و ادب کے ایسے درویش ہیں،جنھوں نے صلہ و ستائش کی پرواہ کئے بغیر اردو ادب کی اپنی بے پناہ تخلیقی قوت سے آبیاری کی ہے۔
پہلے درویش اسلم کولسری کے بارے میں لکھتے ہیں،،اسلم کولسری صاحب ایک معروف شخصیت کے حامل تھے،جن کی بے داغ صحافت اور زخم زخم شاعری انھیں ادب کی بساط پر ہمیشہ زندہ رکھے گی،،
دوسرے درویش اظہار شاہین کے بارے میں لکھتے ہیں،،اظہار شاہین کا نام شاعری اور ان کی درویشانہ عادات کے باعث حلقہء ادب و معاشرت میں زندہ ہے۔اظہار شاہین ایک مستند شاعر ہونے کے ساتھ چہار گانہ انسانی صفات میں ایک بہترین مدبر ،والدین کے فرماں بردار اور اللہ کی رضا پر راضی ،حوصلہ ،صبر اور استقامت کے علمبردار تھے،،
تیسرے درویش اختر رومانی کے بارے میں لکھتے ہیں،،اختر رومانی اپنی شعری زندگی میں آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔ان کہی کا عذاب لکھنے والے اختر رومانی جو سرکاری افسر ہوتے ہوئے بھی شعر وادب کے دیوانے تھے،پروانے تھے،،
چوتھے درویش مصور احساس ،شاعر درویش کے بارے میں لکھتے ہیں،،محترم بشیر رحمانی صاحب فن شاعری کے معنوں کی حثیت سے ادب کے ایسے پروانے بنے کہ دیوانگی کی حد تک شاعرانہ ماحول میں مسحور ہوئے اور پھر شاعری کے استاد کی سرپرستی سے ادبی میدان میں سر بلند و منفرد مقام پالیا۔،،
پانچویں درویش لطیف پیامی کے بارے میں لکھتے ہیں،،وہ خدا داد صلاحیتوں کا خوب استعمال کر رہے ہیں۔ادب و صحافت کے میدان میں ان کی شہ زوری کو تسلیم کرنے کے ساتھ ان کی ادبی زبان اور ادبی تحریر کو باوجود حسد اور جلن کے ماننا ہی پڑتا ہے۔ادب و صحافت کے علاؤہ ان کی درویشی اور تصوف سے آشنائی بھی اپنی جگہ مسلم ہے،،
چھٹے درویش جاوید قاسم کے بارے میں لکھتے ہیں،،بلاشبہ وہ موجودہ دور کے درجنوں شاعروں سے بہتر فنی امور سے آگاہ ہیں۔ان کی شاعری میں تخیل کی بلندی اور فصاحت و بلاغت کا سحر قاری کو مسحور کر دیتا ہے،،
ساتویں درویش کے بارے میں یوں رقم طراز ہو رہے ہیں،،انوار قمر صاحب کا نام اپنے ساتھ چاند اور وہ بھی آسمان ادب و صحافت کی روشنی کی فضا کو منور کر دیتا ہے ۔،،
آٹھویں درویش صادق جمیل کے بارے میں فرما رہے ہیں،،صادق جمیل ایک ایسے معلم ہیں ،جن کے اندر اٹھنے والے درد نے انھیں شاعر بنا دیا۔فن شاعری میں بھی کسی استاد سے کم نہیں ہیں،،
کتاب میں شاکر عنقا نے اپنی خوبصورت تحریر کے ذریعے نواب ناظم کا بھر پور تعارف کروایا ہے،جس سے مصنف کے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی کتب کی تفصیل اور علمی و ادبی زندگی کا بھر پور احاطہ ہوتا ہے۔کتاب کے صفحات کے اندر مزید سفر کریں تو ہمیں اس میں ہر درویش کا تعارف اور اور نواب ناظم کی طرف سے شاعروں کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ادبی جہدوجہد پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔اس کے علاؤہ ان درویشوں کی زندگی اور شاعری پر لکھے گئے منتخب مضامین بھی کتاب کا حصہ ہیں۔والد صاحب کے حوالے سے لکھا گیا میرا طویل مضمون کوٹیشن کی نذر ہو گیا ،اسے الگ سے بھی شائع کیا جا سکتا تھا۔تاہم میں کتاب میں اپنی تحریر پر نواب ناظم کا مشکور ہوں۔اظہار شاہین،،اختر رومانی ،اسلم کولسری اور جاوید قاسم میرے دل کے قریب رہے ہیں اور آخری سانس تک رہیں گے۔ان پر کئی مضامین لکھ چکا ہوں۔
میں ہشت درویش کی اشاعت پر نواب ناظم کو بھر پور خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور اس ادبی کارنامے پر انھیں مبارک باد دیتا ہوں۔ آخر میں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.