بجٹ کے آفٹر شاکس

48

بجٹ کا زلزلے سے کوئی تعلق ہے؟بظاہر تو نہیں ہے ،زلزلہ کم شدت کا ہو،کسی جانی یا مالی نقصان کا باعث نہ ہو تب بھی خوف ذدہ کرتا ہے 2005ء کے زلزے اور اس کی ہولناک تباہی کی تکلیف دہ یادیں آج بھی موجود ہیں ۔وہ دن بھولا نہیں جا سکتا،خوف کو جو عالم تھا اس کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے ،اکتوبر2005ء کی وہ صبح جوں جوں دوپہر میں بدلنا شروع ہوئی تو جنبش زمیں سے ہونے والی تباہی کی اطلاعات بھی تیزی سے سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں ،اس زلزلے کے بعد بہت سے آفٹر شاکس آتے رہے تھے،اللہ تعالی ایسی مصیبت سے اپنی پناہ میں رکھے
زلزلے اور بجٹ میں کچھ ایک جیسا ہے اور بہت کچھ مختلف ہے ،ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کے آفٹر شاکس ہیں ،بجٹ درست نہ ہو تو معیشت کو ایسا جھٹکا دے سکتا ہے جس سے حالت خراب ہو سکتی ہے ،زلزلہ بتا کر نہیں آتا ،جبکہ بجٹ کا اعلان ہو تا ہے ، بہتر یہی ہے کہ ان کی مشترکہ اقدار کی تلاش نہ ہی کی جائے اس سے ذہنوں میں تلخی پیدا ہو سکتی ہے ۔
نئے مالی سال کا پہلا وفاقی بجٹ وفاقی وزیر خزانہ نے اس قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جس کے وہ رکن ہی نہیں ہیں، موجودہ قومی اسمبلی کو ایک یہ ”اعزاز“ بھی حاصل ہے اس کا ایک رکن ایسا نہیں جو وزیر خزانہ بننے کا اہل ہو، اور”پہلا بجٹ“ میں نے اس لئے کہا کہ اب سال میں بجٹ کے کئی کئی ”آفٹر شاکس“ آتے رہتے ہیں
پچھلے سال بجٹ اسحاق ڈار نے پیش کیا تھا، وہ کئی بار وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور جو خزانے کی حالت ہے یہ بات بتانے کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے، اس بار پوری کوشش کے باوجود وہ وزیر خزانہ نہیں بنے، اب انہیں وزارت خارجہ سے نوازا اور شہبازا گیا ہے، ”قومی سمدھی“ ہونے کا جو ”اعزاز“ انہیں حاصل ہے یہ واحد اہلیت ہے جس کی بنیاد پر ان کا وزیر ہونا ضروری ہے
یہ تو ممکن ہے نواز شریف کی وزارت عظمی کے بغیر نون لیگ کی حکومت چل جائے یہ ممکن نہیں ہے اسحاق ڈار کو وزیر بنائے بغیر نون لیگ کی حکومت چل جائے، وزارت خزانہ کی اچھی خاصی سمجھ بوجھ اسحاق ڈار کو آگئی تھی، جس کے بعد قوم کی مالی حالت مزید پتلی ان کی مزید موٹی ہوتی گئی، ہمیں یقین ہے خزانے کی تباہی کے بعد خارجہ کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ بھی انہیں آ ہی جائے گی،
گزشتہ چند سال سے ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہماری معیشت پہلے ہی کھوکھلی ہو چکی ہے۔ ایسے میں جہاں کاروباری شعبہ مالی مشکلات کا شکار ہے وہیں عام شہریوں کی قوت خرید بھی مسلسل کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں سست روی کی جانب گامزن ہیں
تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں اضافے اور بیرون ملک سفر پر بھاری ٹیکس عائد کر کے بزنس کمیونٹی اور پروفیشنلز کے لئے مزید مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے
حکومت نے ایک طرف بعض شعبوں پر ٹیکس کا زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالنے میں بالکل بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا جبکہ دوسری طرف بیوروکریسی اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے علاوہ انہیں مختلف ٹیکسوں کی ادائیگی میں استثنا دے کر ایک غلط مثال قائم کی ہے۔ اس سے حکومت اپنے سیاسی اتحادیوں اور مخالفین کو رام کرنے کے علاوہ بااثر افسرشاہی کی حمایت تو حاصل کر لے گی لیکن عوام کی اکثریت اس امتیازی ٹیکس پالیسی سے بالکل خوش نہیں ہے
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی مجموعی شرح 23.59 فیصد تک پہنچ گئی، ایک ہفتے میں ریکارڈ 29 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ 5 اشیا کی قیمتوں میں کمی اور 17 اشیا کی قیمتیں مستحکم رہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں ٹماٹر کی فی کلو قیمت میں 84 روپے کا اضافہ ہوگیا، آٹے کا 20 کلو تھیلا 188 روپے 44 پیسے مہنگا ہوا، دال چنا اور دال مونگ 9 روپے کلو مہنگی ہو گئی۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق زندہ مرغی فی کلو 7 روپے اور لہسن فی کلو 8 روپے تک مہنگا ہوا، چینی، دہی، دال ماش، چاول، پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے والی اشیا میں شامل ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں پیاز کی فی کلو قیمت میں 11 روپے تک کمی ہوئی، آلو، انڈے، کیلے اور سادہ بریڈ سستی ہونے والی اشیا میں شامل ہیں۔
ہماری ترقی کبھی بھی مستحکم نہیں رہی کیونکہ ہم ترقی کے نمبرز پر دھیان رکھتے ہیں لیکن اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود پر توجہ نہیں دیتے۔ کوئی ملک اس وقت تک مستحکم نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے لوگوں کی تعلیم، صحت، ہنر، تربیت اور روزگار کو ترجیح میں شامل نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں ہماری سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے اہداف کے تعین کے لیے روایتی اہداف کی بجائے، عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں تعین کرے تاکہ ہم دنیا کے ساتھ مقابلیاتی دور میں شامل ہو کر اپنے ملک کا نام روشن کر سکیں۔
اس وقت پوری دنیا میں بزنس، روزگار، تجارت اور تعلیم و ہنر کا طریقہ بدل گیا ہے اور ہمیں سب سے پہلے اپنے لوگوں کو تعلیم دینی ہو گی جس کے لیے انٹرنیٹ کی فراہمی ہر فرد کے لیے انتظامات کرنے ہونگے جس سے ہر سطح پر تعلیم کے سلسلے کے ساتھ ساتھ روزگار میں بھی اضافہ ہو گا مگر حکومت نے بجٹ میں ایسا کو اقدام نہیں کیا۔ اس وقت پوری دنیا سب سے زیادہ کام صحت کی سہولیات کے لیے کر رہے ہیں مگر ہم صحت پر تمام ہمسایہ ممالک سے کم خرچ کرتے ہیں جس وجہ سے ہمارے صحت کے اعشاریے بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھی پیچھے ہیں۔ ہم صحت پر جی ڈی پی کا ڈیڑھ فیصد سے بھی کم خرچ کرتے ہیں جبکہ ڈبلیو ایچ او صحت کے لیے کم از کم 6 فیصد بتاتی ہے اور ہمیں اس کو ترجیح میں شامل کرنا ہو گا۔ کرونا کے بعد روزگار میں کمی سے غربت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ اگلی سطح پر سماجی برائیوں کو جنم دے گی اور حکومت کو غربت کے خاتمے کے لیے کوئی بڑا پراجیکٹ شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں مالی امداد کی بجائے لوگوں کو ہنر مند بنانا ترجیح ہو تاکہ وہ اپنے گھر اور ملک کو مستحکم کر سکیں۔ ہمارے ملک میں 60 فیصد سے زیادہ لوگ 30 سال سے کم عمر کے ہیں اور یہ ہمارا اصل اثاثہ ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کے لیے خصوصی پیکج دے کر ان کو تعلیم، ہنر اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہونگے اور یہ ہمارے ملک کو معاشی اور سماجی سطح پر استحکام کی طرف لے جا سکتے ہیں۔بجٹ اس سلسلے کا پہلا قدم ہوتا ہے اور اگر ہم روایتی بجٹ سے نکل کر اپنے ملکی اور عالمی تناظر میں اہداف کا تعین کریں تو ہم دنیا کی مقابلیاتی فضا میں اپنی ساکھ بحال کر سکتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.