خود غرضی کے رویے مگر کیوں ؟

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

4

روزمرہ زندگی میں اکثر انسانی خود غرضی  کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ہمارے علاقے میں  جوں ہی شوگر ملز چلتی ہیں اور گنے کی ٹرالیاں سڑکوں پر آتی ہیں تو اکثر سڑکیں حادثات  اور بےترتیب ٹریفک کی باعث بند ہو جاتی ہیں ۔ٹریفک جام ہوجاۓ تو ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔جہاں ہائی وۓ پولیس بھی بےبس دکھائی دیتی ہے ۔ہر شخص یہی  چاہتا ہے کہ  وہ کسی طرح آگے نکل جاۓ چاہے ساری ٹریفک رکی رہے ۔اس لیے وہ  اپنی گاڑی آگے نکلنے کی چکر میں ایسا پھنسا دیتا ہے کہ پوری کی پوری ٹریفک پھنس جاتی ہے ۔سڑک پر گاڑیوں کی چار لین بن جاتی ہیں ۔خود غرضی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے حادثات ہوجاتے ہیں ۔ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ اس ہجوم سے خو د کسی طرح   نکل جاۓ چاہے کوئی دوسرا  ٹریفک میں پھنسے تو پھنس جاۓ ۔سڑک پر کوئی حادثہ ہو جاۓ اور کوئی زخمی پڑا ہو تب بھی یہی دیکھا گیا ہے لوگ وہاں ٹھہرنا بھی گوارہ کرتے ۔وہاں سے گزرنے کی جلدی میں انسانی جان کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اسے بے  حسی سے زیادہ  خود غرضی کہا جاتا ہے ۔اور تو اور شادی کی تقریبات کے دوران کھانا لیتے ہوۓ ضرورت سے زیادہ اس لیے اپنی پلیٹ میں ڈال لیتے ہیں  اور ضائع کر دیتے ہیں  کہ کہیں دوبارہ نہ مل سکے یہ نہیں سوچتے کہ باقی لوگوں کو کیسے پورا ہوگا  اور بےچارے میزبان کا کس قدر نقصان ہوگا بسا اوقات تو اس ضیاع کی وجہ سے میزبان کو شرمندگی اٹھانی پڑ جاتی ہے اور کھانا  ہماری خود غرضی کی وجہ سے کم پڑ جاتا ہے ۔خود غرضی کا یہ کلچر ہمارے معاشرۓ  کے ہر شعبہ زندگی میں بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے ۔ہم قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرنے کی بجاۓ دوسروں کو دھکیل کر آگے جانا چاہتے ہیں ۔ اپنے گھروں کی صفائی کا پانی گلیوں میں دوسروں کے راستے میں ڈال دیتے ہیں ۔اپنے گھروں کی اونچائی دوسروں سے بلند کرکے دوسروں کے گھروں کو نیچا کردیتے ہیں  ۔ناجائز تجاوزات دراصل خود غرضی کی وجہ سے ہی جنم لیتی ہیں ۔ہمارۓ گھروں  اور دوکانوں کے تھڑے ،شیڈ ،سیڑھیاں ہماری گلیوں محلوں کو تنگ کر دیتی ہیں۔ہم فٹ پاتھوں پر قبضہ کرکے پیدل چلنے والوں کا حق چھین لیتے ہیں  اور اپنا حق سمجھتے ہیں   ۔صرف اپنا چولہا جلانے کے لیے گیس کی مشین لگا کر پورے علاقے کی گیس کھینچ لیتے ہیں ۔ اپنے گھر کی گندگی دوسرے کے گھر کے سامنے پھینک کر خوشی محسوس کرتے ہیں ۔گلیوں میں  اپنے گھروں کے سامنے بڑے بڑے شیڈ بنا کر اپنی گاڑیاں کھڑی کر نا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ایسی ہی بےشمار مثالیں اور بھی ہیں ۔اس کے باوجود  ہم خود کو کبھی خود غرض نہیں سمجھتے ۔غرض بےشمار برائیاں ہماری خود غرضی کی بدولت جنم لیتی ہیں ۔ہماری معاشرتی  بےحسی اور خود غرضی کی عکاسی اس بات سے ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کے مسائل کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھتے بلکہ اپنے مسائل حل کرنے کےلیے دوسروں کے لیے مسائل بڑھا دیتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اگر ہم خود ایسی ہی کسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہوں  اور لوگ یوں ہی خود غرضی اور بے حسی کا مظاہرہ کریں  تو ہمیں  کیسا محسوس ہو گا ؟

کہتے ہیں کہ خود غرضی کسی ایسے برتاؤ کا نام  ہوتا ہےجس میں حد سے زیادہ یا کسی بھی حد وفکر سے بالا تر ہو کر ایک شخص اپنے ذاتی مفاد اور بہتری ،تفریح ،رفاہ اور سکون پر توجہ دۓ ۔اسی لیے خود غرضی کو بے لوثی کی ضد قرار دیا جاتا ہے ۔یہ ایک منفی قدر کی نمائندگی کرتی ہے  یعنی یہ خود غرضی  ایک مثبت احساس یا یقین کے برعکس ہوتی ہے جو عام انسانی اقدار ،لوگوں کے طرز عمل اور زندگی میں نمائندگی کرتے ہیں ۔خود غرضی کا سادہ سا مطلب ہے کہ ایک شخص زیادہ سے زیادہ خود کی محبت اور مفاد خیال رکھے ۔یہی خود غرضی اسے  اپنے مفاد کی خاطر دوسروں  کے مفاد یا بھلائی میں دلچسپی نہ لینے یا دوسروں کی خیر خواہی کرنے سے بھی روکتی ہے ۔دراصل خود غرضی ایک سوچ اور رویے کا نام ہے جس کے مطابق اپنے مفاد کے لیے سب کچھ کرنا ہے چاہے اس سے کسی کا نقصان بھی کیوں نہ ہوتا ہو ۔کہتے ہیں کہ انسان بنیادی طور کسی نہ کسی حد تک خود غرض ہوتا ہے ۔اپنے بارے میں سوچنا اچھی بات ہے لیکن یہ ایسی خود غرضی   ہے جو کسی کو نقصان نہیں  پہنچاتی اور  وہ کسی حد تک جائز بھی ہوتی ہے ۔لیکن اپنی ذات کے آگے کوئی اور نظر نہ آۓ تو یہ نقصان دہ خود غرضی ہے لیکن اگر اپنی  ذاتی خوشی کے لیے  دوسروں کی خوشیوں کو بھی روند دیا جاۓ تویہ خودغرضی ہی نہیں ظلم بھی ہوتا ہے ۔یعنی جب ہماری انفرادی سوچ ہماری اجتماعی سوچ  پر غالب آجاۓ  اور دوسروں کی خوشی اور کامیابی  سے جلن ہونے لگے تو یہ خود غرضی کے ساتھ ساتھ حسد بھی کہلاتا ہے ۔اپنا کام کرنا اور اس پر توجہ دینا خود غرضی نہیں بلکہ  اپنے کام کرنے کے لیے دوسروں کو کام نہ کرنے دینا خود غرضی ہے ۔

آج ہم ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں ہر شخص اپنی بقا  اور مفادات کی جنگ میں مصروف ہے ۔ دولت ،شہرت ،طاقت کے حصول کی دوڑ نے ہمیں دیوانہ بنا دیا ہے ۔خواہشات کی تکمیل کے لیے لوگوں کو روندنا معمول بن چکا ہے ۔اس میں کوئی حرج نہیں کہ اپنے مفادات کا تحفظ کیا جاۓ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اجتماعی بھلائی کو  مکمل طور پس پشت  کیوں ڈال دیتے ہیں؟خود غرضی ایک عام انسانی فطرت ہے یا ہمارے معاشرتی نظام میں ایک بڑھتا ہوا منفی رجحان  ہے ؟ یہ منفی کلچر کیوں بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے ؟ پس پردہ کیا وجوہات اس کے پھیلاو کا باعث بن رہی ہیں ؟جبکہ ہم اگر کسی سے بھی پوچھیں کے آپ خود غرض ہیں تو وہ ماننے سے انکار کر دۓ گا یہاں تک کہ ہم اپنی ذات کے بارۓ میں بھی یہی سمجھتے ہیں  ہم خود غرض نہیں ہیں جبکہ ہم سب کسی نہ کسی حد تک ضرور خود غرض ہوتے ہیں ۔اگر ہم خود غرضی کے عوامل پر غور کریں تو اس کی بہت سی وجوہات سامنے آتی ہیں ۔سب سے بڑی وجہ ہمارے معاشرتی رویوں  میں تیزی سی ہوتی تبدیلی ہے ۔پہلے خاندانی نظام اور پڑوس کا تصور موجود اور مضبوط ہوا کرتا تھا ۔ایک دوسرے کے مسائل  میں شریک ہوکر خوشی اور غم بانٹنے کا رواج اور روایت قائم تھی ۔لیکن رفتہ رفتہ اب بیشتر لوگ اپنی ذات ،مفادات اور کامیابیوں میں اس قدر مگن ہوچکے ہیں کہ دوسروں کے لیے وقت نکالنا تو درکنار سوچنا بھی مشکل ہوتا چلا جارہا ہے ۔اپنے اپنے مسائل اس قدر بڑھتے جارہے ہیں کہ لوگوں کو انہیں سے ہی فرصت نہیں ملتی ۔ خود غرضی کی ایک وجہ مسابقتی زندگی بھی ہے جہاں آج کے دور  میں کامیابی ،ترقی اور دولت کی دوڑ نے اپنے مفادات  کو ترجیح دینے پر مجبور کردیا ہے ۔آج کل سوشل میڈیا پر دکھاوۓ اور شو بازی کے کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے۔انسان اب دوسروں کے لیے کم اور اپنی تشہیر کے لیے زیادہ کام کر رہا ہے ۔اسی طرح کچھ لوگ حد سے زیادہ خود پسند ہوتے ہیں اور خبط عظمت  یا زعم پارسائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔اپنی بڑائی کے احساس کی باعث دوسروں کے جذبات کی پرواہ نہیں کرتے  تو دوسری جانب بعض لوگ عدم تحفظ  کی وجہ سے  اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔وہ دوسروں کو نقصان پہنچا کر یا صرف اپنی ذات کے بارۓ میں سوچ کر ہی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں ۔اس کلچر کے فروغ میں ہمارے بچپن کی تربیت کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔جہاں ہمیں صرف اپنی ضروریات پورا کرنا ہی سیکھایا جاتا ہے ۔جبکہ والدین کو صرف جیتنے ” اور “لینے “کی نہیں بلکہ بانٹنے ” اور “دینے “کی بھی تربیت دینی چاہیے ۔

خود غرضی کوئی نفسیاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک معاشرتی  رویہ ہوتا ہے جو ہر انسان میں الگ الگ نوعیت کا ہوتا ہے ۔خود غرضی کا یہ  منفی کلچر معاشرۓ میں اگر یونہی بڑھتا چلا گیا تو یہ معاشرتی بگاڑ اور نفسیاتی مسائل کو جنم دۓ سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس رویۓ کو متوازن رکھنے کی کوشش کریں اور صرف اپنے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی  مثبت سوچ رکھیں ۔جس کے لیے دوسروں سے ہمدردی پیدا کرنا ،انفرادی  اور اجتماعی  فلاحی کاموں  میں شامل ہوکر اس بارۓ میں  اجتماعی شعور بیدار کر سکیں ۔ خودغرضی کی سب سے اہم وجہ  ہماری اپنے دین سے دوری ہے ۔خود غرضی کے بارۓ میں ہمارے مذہب اور دین نے بڑی وضاحت سے احکامات دئیے ہیں اسی لیے ہم میں سے کسی کو اچھا نہیں لگتا کہ کوئی ہمیں خود غرض کہہ کر پکارۓ ۔کیا ہم خود غرض ہیں ؟ ہرگز نہیں کیونکہ اسلامی تعلیمات تو ہمیں ایثار ،قربانی ،خیر خواہی ،ہمدردی  اور غم خواری سکھاتی ہیں ۔حدیث مبارک ہے کہ “تم میں کامل ایمان والا وہ ہے جو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرۓ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔”اگر ہم عبادات کے ساتھ ساتھ ان معاملات پر بھی توجہ دیں تو اس معاشرتی رویے کو سدھارنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.