مکالمات عرفان کے مطالعہ سے مجھے تو بڑی سستی تفریح اور دائمی مسرت محسوس ہوئی ہے ایسی کتابوں کے مصنفوں کی نگارشات کا مطالعہ بغور کرتے رہنا چاہیے جنہوں نے آپ کی طرح مقصد زندگی اور نصب العین معین کر کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور اس میں کامیاب ہوئے آپ دیکھیں گے کہ ان کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہوئیں وہ حتمی اور اٹل تھیں ، مگر انہوں نے ان رکاوٹوں کو راستے سے ہٹا دیا ۔ رکاوٹوں کو ہٹانے میں عرفان مرتضیٰ کا عزم بالجزم پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے اور آج وہ جس مقام پر فائز ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارا ان کی مسلسل جدوجہد کا ثمر ہے ۔ سی ٹی این فورم اور حلقہ ء توقیر ادب کے اشتراک سے مکالمات عرفان کی تقریب رونمائی کی صدارت ڈاکٹر سعادت سعید نے کی جبکہ خطبہ ء استقبالیہ چیئرمین سی ٹی این مسعود علی خان نے تالیوں کی گونج اور مسکراہٹوں کے پھول نچھاور کرتے ہوئے ماحول میں کیا ۔ مسعود علی خان وقت کی پابندی کے بہت پابند ہیں وہ وقت ضائع نہیں کرتے اپ نے ایک منٹ سے 60 سیکنڈ کی قیمت وصول کی ہے اور یہ حقیقت ہے زمانہ کسی کا انتظار نہیں کرتا جو اپنا وقت بے عملی میں کھو دیتے ہیں وہ اپنی ہر بات ذلت رسوائی کے ساتھ کھو جاتے ہیں ، مہمان خصوصی پروفیسر غلام حسین ساجد کی ذاتِ گرامی تھی مقررین میں جناب اعزاز احمد چوہدری سابق سفیر امریکہ، جناب خالد شریف، ڈاکٹر شاہد اشرف، امریکہ سے شاعر و مصور عرفان مرتضی اور حرف تشکر توقیر احمد شریفی نے بڑی خوبصورتی سے ادا کیا اور یہ حقیقت ہے کہ مکالمات عرفان کا مطالعہ دماغ کے لیے وہی اہمیت رکھتا ہے جو جسم کے لیے ورزش کام کرتی ہے دکھوں سے بچنے کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ تیار کرنا چاہتے ہو تو اچھی کتاب کا مطالعہ کرو حقیقت یہ ہے کہ تین دن بغیر مطالعہ گزار لینے کے بعد چوتھے روز گفتگو میں پھیکا پن آ جاتا ہے چینی ضرب المثل بالکل صد فیصد درست ہے تلسی داس نے کہا تھا کہ دماغ کے لیے مطالعہ کی وہی اہمیت ہے جو کنول کے لیے پانی کی ، ،، تصویریں ،، کے بعد مکالمات عرفان ، عرفان مرتضی کی تصوراتی مکالمات پر مبنی دوسری تصنیف ہے شعراء کرام سے ان کی شاعری کے ذریعے تصوراتی گفتگو کا یہ انوکھا انداز عرفان کی پہچان بن چکا ہے یہ مکالمات روایئتی مضامین سے مختلف ہیں ، قلم کاروں سے تصوراتی ملاقاتیں، گفتگو، بحث مباحثہ ، نوک جھونک اور سوال جواب کے دوران شعراء کے اشعار کا چناؤ شاعروں کے اسلوب کی نمائندگی کرتا دکھائی دیتا ہے مختلف شعراء کرام سے تصوراتی مکالمات کا یہ سلسلہ انتہائی دلچسپ ہے اور الفاظ سے منظر کشی قارئین کو ان مکالمات کا ایک کردار بنا دیتی ہے۔ دوران مطالعہ قاری یہ بھول جاتا ہے کہ یہ ایک تصوراتی گفتگو ہے یہ حقیقتاً شاعر سے گفتگو ہو رہی ہے ۔ عرفان مرتضی کا تعلق کراچی پاکستان سے ہے اور وہ گزشتہ 38 برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں عرفان اردو رائٹرز سوسائٹی کے بانی اور موجودہ صدر ہیں جو 2003 سے امریکہ میں اردو ادب کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں ، ۔ عرفان کو دنیا بھر میں ان کی نظموں کے حوالے سے جانا اور پہچانا جاتا ہے اور وہ مختلف ممالک میں وہ مشاعروں میں میں اپنا کلام پیش کر چکے ہیں جن میں امریکہ، کینیڈا، دبئی، پاکستان، انگلینڈ، سنگاپور اور دیگر ممالک شامل ہیں اردو کمیونٹی میں وہ اپنی مشہور نظموں ، جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا،، اب بھی ایسا ہوتا ہوگا ،، اور ،، پرانے گھر کے موسم ،، کے لیے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں ۔ حلقہ توقیر ادب کے سربراہ کی نقابت اور نظامت کے حسین امتزاج سے محفل کی رنگینی اور ماحول میں ایک گونا مسرت کی لہر دوڑ گئی، آپ نے انے والے تمام مقررین مہمانوں کا بڑی خوبصورتی سے تعارف کرایا اور یہ حقیقت ہے کہ توقیر احمد شریفی نے طوالت پر اختصار کو ترجیح دی اور وقت مقررہ پر تقریب کا اغاز ہوا اور اختتام ہوا تلاوت قران پاک کی سعادت اپ نے خود حاصل کی اور اس کے بعد قومی ترانہ کے احترام میں تمام سامعین اور مہمان گرامی ایستادہ ہو گئے ، مکالمات عرفان کے خالق مرتضی عرفان مرتضی نے مصطفی زیدی کے ساتھ جو مکالمہ کیا وہ انہوں نے سامعین کو سنایا اور عقل دنگ رہ گئی انہوں نے بتایا کہ زیدی بھائی کا گھر میرے گھر کے نزدیک ہی تھا اس لیے جب بھی کسی ادبی نشست میں جانا ہوتا میں انہیں ساتھ ہی لے جاتا تھا ایک تو یہ کہ وہ گاڑی چلاتے ہوئے گھبراتے تھے اور دوسرے یہ کہ مجھے بھی ان سے باتیں کرنے میں مزہ اتا تھا لیکن حال ہی میں وہ اپنا گھر بیچ کر ایک ویرانے میں جا بسے تھے حالانکہ میں نے انہیں بہت سمجھایا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب شہر میں رہ رہ کر دل اکتا گیا ہے اور ویسے بھی یہ نیا گھر دوسرے گھروں سے الگ تھلگ ہے میں نے سوچا کہ مہمانوں کو نہ بلانے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے اج بھی ایک مشاعرہ تھا اور ہمیشہ کی طرح میں مصطفی زیدی کو لینے کے لیے جا رہا تھا انہوں نے مجھے فون پر اپنے گھر کا راستہ سمجھا دیا تھا میں ابھی ان کے گھر سے تھوڑی دور ہی تھا کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بھیجی میں نے فون اٹھایا تو اواز آئی
وفا کا نام بھی زندہ ہے میں بھی زندہ ہوں
اب اپنا حال سنا مجھ کو بے وفا میرے
ان کے گھر پہنچنے میں ذرا بھی دیر ہو جاتی تو وہ پریشان ہو جاتے تھے اور فورا فون پہ فون کرنے لگتے تھے میں نے کہا زیدی بھائی بس ذرا سا راستہ رہ گیا ہے میں ابھی پہنچتا ہوں فرمایا
ابر تو صرف دلاسے کے لیے آتے ہیں
کھیت جل جاتے ہیں برسات کی امید کے ساتھ
میں نے انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہا آپ فکر نہ کیجئے آپ کا کوئی کھیت