ترمیمی پیکا ایکٹ

0

دنیا بھر میں جرائم کی روک تھام کے لیے قوانین تشکیل دیئے جاتے ہیں. وقت کے ساتھ ساتھ ان میں ترامیم بھی کی جاتیں ہیں. تاکہ یہ سود مند ثابت ہوسکیں . کیونکہ جرائم ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے. جرائم پیشہ افراد جرم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں. بدقسمتی سے ملک پاکستان میں انگریز کے بنائے ہوئے. قوانین چل رہے ہیں. ان میں کوئی ردبدل نہیں کیا گیا. جس کی وجہ سے لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں مشکلات درپیش آتی ہیں. کئ کئ سال تک انصاف کی فراہمی کے لیے ایڑیاں رگڑنی پڑتی ہیں. بسا اوقات تو ایک نسل مقدمہ کرتی ہے. تو تیسری نسل اس کا فیصلہ سن پاتی ہے. اچھا اور مثبت قانون وہی ہوتا ہے. جو لوگوں کو بروقت انصاف فراہم کر سکے. ہمارے ہاں ایک تو قوانین فرسودہ ہیں. دوسری طرف انصاف کرنے والے جاہل ہیں. جس کی وجہ سے لوگوں نے عدالتوں کی بجائے خود سے انتقام لینا شروع کر دیا ہے. جیسے جیسے سائنس ترقی کی منازل طے کرتی جا رہی ہے. ویسے ویسے ذرائع ابلاغ بھی بدلتے جا رہے ہیں. شروع  میں ریڈیو اور اخبارات ہوتے تھے. جو لوگوں تک خبریں پہنچاتے تھے. پھر برق رفتاری کا دور دورا ہوا. سوشل میڈیا نے سب چیزوں کو پیچھے چھوڑ دیا. آج انسان کہی بھی بیٹھا اپنے موبائل فون کی سکرین پر دنیا بھر کی خبریں سنتا ہے. یہ ایک احسن اقدام ہے. مگر اس جدید ٹیکنالوجی کے فائدہ کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہیں. اس پر بغیر تصدیق کے خبریں شائع کر دی جاتی ہیں. جس سے انتشار پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے. پاکستان میں بھی دنیا بھر کی طرح سوشل میڈیا کو کنڑول کرنے کے لیے پیکا ایکٹ تشکیل دیا گیا ہے . مگر یہ قانون وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا. یا یہ سوشل میڈیا کو مناسب طریقہ سے کنڑول نہیں سکا. اب موجودہ حکومت نے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کا نفاذ کیا ہے. جس کے تحت سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کو کنڑول کرنے کے لیے ایک پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی بنے گی. جس کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہوگا. اور صوبائی دارالحکومتوں میں بھی اس کے دفاتر ہوگے. یہ اتھارٹی سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کو دیکھے گی. اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرے گی. یہ کسی بھی قسم کے منفی مواد کو متعلقہ پلیٹ فارم سے ہٹانے کے لیے ہدایت جاری کرے گی. یہ سوشل میڈیا پر منفی، جھوٹا، توہین آمیز، من گھڑت مواد نشر کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی بھی کرے گی. جرم ثابت ہونے پر ایسا منفی فعل سرانجام دینے والے فرد کو دس لاکھ جرمانہ اور دو سال قید بھی ہو سکتی ہے. اگر غور سے اس ترمیمی بل کا مطالعہ کیا جائے. تو اس کی کوئی شق بھی قابل اعتراض نہیں. جس پر ہماری صحافی برادری احتجاج کر رہی ہے. پیشہ ور صحافیوں کے لیے تو پہلے ہی متعدد قوانین ہیں. اخبارات سے وابستہ صحافی حضرات کے لیے مختلف ایجنسیاں ہیں. جو ان کی مانٹیرنگ کرتی ہیں. اخبارات خود بھی اپنی ساختہ کا خیال رکھتے ہوئے. کوئی غلط مواد شائع نہیں کرتے. الیکڑانک میڈیا کے لیے پیمرا ایک الگ سے ادارہ بنایا گیا ہے. جو کسی بھی نشریاتی چینل کو مجوزہ قوانین کی تابع داری کرنے کی شرط پر لائسنس جاری کرتا ہے. اور ان قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں اس چینل کا لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے. اس لیے پیشہ ور میڈیا پرسن کو پیکا ترمیمی ایکٹ سے کوئی نقصان نہیں. یہ قانون تو غیر پیشہ ور، ناتجربہ کار، اناڑی لوگوں کے کیے درد سر کا باعث ہے. آجکل سوشل میڈیا پر ہر کوئی صحافی بنا ہوا ہے. شرپسند عناصر صحافتی اصولوں سے ناواقف لوگوں نے یوٹیوب چینل بنا رکھے ہیں. وہ اس پر جو دل میں آتا ہے. بغیر کسی ثبوت اور تصدیق کے آپ لوڈ کر دیتے ہیں. جس سے معاشرے میں افراتفری اور انتشار پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے. ایسے ایسے وی لاگر یوٹیوب پر موجود ہیں. جن کا صحافت کے پیشہ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں. موجودہ ترمیمی پیکا ایکٹ ایسے لوگوں کی سر کوبی کا بہترین ذریعہ ہے. اس لیے صحافی برادری کو احتجاج کرنے کی بجائے حکومت کا ساتھ دینا چاہیے. ترمیمی پیکا ایکٹ کے تحت بننے والی اتھارٹی میں صحافی بھی شامل ہوگے. وہ اپنے خدشات کو وہاں بہتر طریقہ سے حل کروا سکتے ہیں. اس ترمیمی قانون سے کسی صحافی تنظیم اورنشریاتی چینل کو کوئی نقصان نہیں ہوگا. بلکہ ان کا فائدہ ہوگا. نام نہاد صحافیوں سے چھٹکارا مل جائے گا. جو صحافی برادری کے لیے باعث شرمندگی ہیں. یہ لوگ بغیر کسی تصدیق کے سوشل میڈیا ایپس پر ایسا ایسا غلیظ مواد شائع کر دیتے ہیں جس کا منہ سر نہیں ہوتا. یہ لوگ کسی کی بھی عزت و توقیر کا خیال نہیں رکھتے. اس قانون کا اطلاق پورے ملک میں ہوگا. کسی کے خلاف سیاسی وابستگی کی بنیاد پر کاروائی نہیں ہوگی. بلکہ بلا تفریق کاروائی ہوگی. سب پاکستانیوں کی عزت و توقیر کا خیال رکھا جائے گا. یہ منفی سوچ کے لوگ کسی کے ہمدرد نہیں ہوتے. اس لیے ان سے اظہار ہمدردی کرنا بھی جرم ہے. یہ لوگ اپنی سستی شہرت کے لیے کسی پر بھی کیچڑ اچھال دیتے ہیں. یوٹیوب پر ایسے ایسے وی لاگر ملے گے. جن کی کوئی پہچان نہیں. صحافی برادری کو جھوٹ کے تحفظ کے لیے احتجاج زیب نہیں دیتا. کیا ہم اس قانون کے خلاف احتجاج کرکے دنیا کو باور کروا رہے ہیں. کہ ہماری صحافی برادری جھوٹی ہیں. اور من گھڑت، بے بنیاد خبریں شائع کرتی ہے. ہرگز نہیں پاکستان کے صحافیوں نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر دنیا بھر میں اپنا مقام بنایا ہے. ہمارے نیوز کاسٹر، اینکر پرسن، رپورٹر کی مستعند خبر نگاری نے دنیا میں نام پیدا کیا ہے. اب ہم ان نام نہاد جھوٹی، بے بنیاد خبریں پھیلانے والوں کا ساتھ کیوں دیں . کوئی بھی قانون غلط سوچ سے نہیں بنایا جاتا. قانون کا مطلب ہی معاشرے سے نا انصافی، جھوٹ، برائی کا سدباب کرنا ہوتا ہے. اگر اس قانون کی کسی شق سے صحافی بھائیوں کو لگتا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.