نواز شریف کینسر کئیر ہسپتال عوام کے لیے تحفہ۔

ن و القلم۔۔۔مدثر قدیر

6

کینسر اب ماضی کی طرح لاعلاج مرض تو نہیں رہا مگر اس کا علاج بہت تکلیف دہ اور طویل ثابت ہوتا ہے جبکہ اس کے اثرات کے نتیجے میں بالوں سے محرومی، وزن میں کمی اور کئی دیگر سائیڈ ایفیکٹ کا بھی سامنا ہوتا ہے۔اس موذی مرض کے حوالے سے اکثر طبی تحقیقی رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں جن میں اس پر قابو پانے کے لیے مختلف طریقہ کار بتائے جاتے ہیں جو آسان اور نسبتاً صحت کے لیے کم مضر ہوتے ہیں۔
یہ بات جان لیں کہ کینسر راتوں رات آپ کے جسم کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ اس کے لیے کافی عرصہ درکار ہوتا ہے تو اگر آپ اوائل عمر یا نوجوانی سے ہی سرطان کے خلاف مزاحمت کرنے والی غذاؤں اور طرز زندگی کے دیگر امور کو اپنا لیں تو کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کرسکتے ہیں۔ایسے عوامل جنکی وجہ سے کینسر ہونے کا احتمال رہتا ہے ان میں سرفہرست میٹھے مشروبات جیسے سافٹ ڈرنکس وغیرہ نہ صرف موٹاپے اور ذیابیطس کا خطرہ بڑھاتے ہیں بلکہ معدے یا اس سے متعلقہ دیگر عضو میں کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ پبلک ہیلتھ کی ایک تحقیق کے مطابق جو خواتین بڑی مقدار میں چینی سے بھرپور مشروبات کا استعمال کرتی ہیں ان میں رحم مادر کے کینسر کا خطرہ 87 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، جبکہ موٹاپے اور ذیابیطس جیسے عوارض الگ عذاب جان بن سکتے ہیں جبکہ جو لوگ اپنے دن کا زیادہ تر وقت بیٹھ کر گزارنے کے عادی ہوتے ہیں ان میں بڑی آنتوں اور معدے کے کینسر کا خطرہ جسمانی طور پر سرگرم افراد کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہوتا ہےاور جو لوگ ٹیلی ویژن کے سامنے بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں ان میں آنتوں کے کینسر کا خطرہ 54 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اگر تو کھڑا ہونا مشکل لگتا ہے تو ہر گھنٹے میں کم از کم کچھ منٹ کے لیے ارگرد کی چہل قدمی کو ہی اپنالیں جو اس موذی مرض کا خطرہ کم کرنے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے۔ہمارے جسم میں وٹامن ڈی کی 90 فیصد مقدار سورج کی روشنی کے نتیجے میں آتی ہے اور اس میں غذا یا کسی سپلیمنٹ کا کمال نہیں ہوتا۔ وٹامن ڈی کی کمی خلیات کے درمیان رابطے کی صلاحیت کو گھٹا دیتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے اکھٹے ہونے کا عمل رک جاتا ہے اور کینسر کے خلیات کو پھیلنے کا موقع مل جاتا ہےاور وٹامن ڈی خلیات کے مناسب رابطے اور دوبارہ پیدا ہونے کے عمل کو بھی روکتا ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں بریسٹ، آنتوں، مثانے، مادر رحم اور معدے کے کینسر کا خطرہ بہت ہوتا ہے جبکہ ہڈیوں کی کمزوری، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر بھی آپ کو شکار کرسکتا ہے۔ یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو خواتین روزانہ ورزش کرتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ جسمانی طور پر کم سرگرم خواتین کے مقابلے میں تیس سے 40 فیصد تک کم ہوتا ہےاور متعدل مقدار میں ورزش سے خون میں ایسٹروجن کی سطح کم ہوتی ہے جو ایک ایسا ہارمون ہے جو بریسٹ کینسر کے خطرے پر اثر انداز ہوتا ہےجبکہ ہفتہ بھر میں چار گھنٹے تک چہل قدمی سے لبلبے کے کینسر کا خطرہ 50 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ اس معمولی سمجھی جانے والی جسمانی سرگرمی کے نتیجے میں میٹابولزم میں بہتری آنا شامل ہے۔ تمباکو نوشی پھیپھڑوں کے کینسر کا باعث بنتی ہے مگر سیگریٹ سے صرف یہی نقصان نہیں ہوتا۔ سیگریٹ نوشی منہ، حلق، مثانے، لبلبے اور گردے سمیت کئی اقسام کے کینسر کا شکار بناسکتی ہے۔کینسر کسی طرح کا ہی کیوں نہ ہو اگر اس کا علاج ایک چھت کے نیچے فراہم ہوجائے تو مریض کو تندرست ہونے میں کئی سال نہیں بلکہ دن لگتے ہیں ،صوبے میں کینسر سے بچائو کے ہسپتال تو موجود ہیں مگر وہاں پر مریضوں کے لیے سہولیات ناکافی ہیں جیسے اگر ان ہسپتالوں میں ریڈیو تھراپی کی سہولت موجود ہے تو ان کو کیموتھراپی کے لیے دوسرے ہسپتال اور سرجری کے لیے کسی تیسرے ادارے کی جانب رجوع کرنا پڑتا ہے ان حالات میں لاہور کا میو کینسر کئیر مریضوں کو سہولیات فراہم تو کررہا ہے مگر مریضوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ س یہاں پر بھی طبی سہولیات تر رسائی مشکل ہوتی جارہی ہے اسی بات کو لے کر وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف نے تاریخی قدم اٹھایا اور ویلنشیاٹائون کے نزدیک ایک مکمل اسٹیٹ آف دی آرٹ کینسر ریسرچ سنٹر کا افتتاح کردیا اس کینسر ریسرچ سنٹر کو نواز شریف کینسر ریسرچ سنٹر عرف عام میں نواز شریف کینسر کئیر ہسپتال کا نام دیا گیا اور اس کی زمین کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی ملکیت دی گئی اور اس کا پہلا پی سی ون کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمود ایاز اور میو کینسر کئیر کے چیف آپریٹنگ آفیسر پروفیسر وسیم حیات خان نے بنایا جس کے مطابق نواز شریف کینسر کئیر ہسپتال 920سےزائد مریضوں کو کینسر کے علاج میں معاون اور مددگار سہولیات سرکاری سطح پر بلا امتیاز فراہم کی جائیںگی ۔آپ دیکھیں کہ پنجاب کے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں میںکینسر کے مریضوں کے لیے وارڈز تو بنائے گئے ہیں مگر وہاں پر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور مریضوں کواپنے علاج کے لیے لاہور میں میو ہسپتال،سرگنگا رام ہسپتال ،سروسز ہسپتال اور جناح ہسپتالوں کے کینسر وارڈز میں رجوع کرنا پڑتا ہے اس طرح کسی بھی ایک وارڈ میں مریض کو اپنے علاج کے حوالے سے طبی سہولیات نہیں ملتیں اگر ایک جگہ کیموتھراپی مل رہی ہے تو ریڈیو تھراپی کے لیے اسے 10کلومیٹر دور دوسرے ہسپتال جانا پڑتا ہے اگر ایک ہسپتال میں اسے ادویات مل رہی ہیں تو آپریشن کے ضمن میں اسے دوسرے ہسپتال جانا پڑتا ہے اور اسی کشمکش میں مرض کی شدت بڑھ کر موت کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔اس صورتحال کے تناظر میں ان ہسپتالوں میں مریضوں کا شدید رش ہوجاتا ہے اور اسی تناسب سے کینسر کے علاج میں معاون اور مدد گار طبی سہولیات کم پڑنا شروع ہوجاتی ہیںمگر نواز شریف کینسر کئیر ہسپتال کی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.