پاکستانی سیاست میں برداشت کے کلچر کا فقدان

77

دنیا بھر کی سیاست میں برداشت، تحمل، بردباری کا عنصر کارفرما نظر آتا ہے. ترقی یافتہ ممالک میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ قومی و بین الاقوامی مسائل پر آپس میں دلائل سے بات چیت کرتے ہیں.
ظاہر ہے.
ہر سیاسی جماعت کا نقطہ نظر اور سوچ ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے. وہ ایک دوسرے کو قائل کرنے کے لیے مثبت بات چیت کرتے ہیں.
اس کے نتیجہ میں وہاں حکومت کی جانب سے بنائی گئیں. پالیسیاں دیرپا ہوتیں ہیں. عوام سمجھتی ہے. کہ کون سی پالیسی ان کے ملک کے لیے مثبت اور تعمیری ہے. ان ممالک کی ترقی کا راز بھی مثبت اور تعمیری سوچ ہے.
ملک پاکستان میں ایسا نہیں. ہماری قوم عقل کی بجائے. جذبات سے کام لیتی ہے.
کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں. ہر کوئی اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے. یہی رویہ ہماری پسماندگی کا سبب ہے. ہم سب بحثیت پاکستانی ایک قوم ہے..نظریات اور سوچ میں فرق ضرور ہے.
مگر ہم ایک دوسرے کے دشمن ہرگز نہیں. کاش ہم سیاسی اختلافات کو آپس میں مل جل کر حل کر سکتے. ہماری سیاسی قیادت اور عام پارٹی ورکرز انتہائی جذباتی پن کا مظاہرہ کرتے ہیں.
جس کی وجہ سے بات سلجھنے کی بجائے. مزید خرابی کی طرف چلی جاتی ہے. اختلاف رائے سیاست کا حسن ہے. جس طرح سے کرکٹ، فٹ بال، ہاکی و دیگر کھیلوں میں ہم لوگ اپنی من پسند ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں.
اور اس کی جیت کے لیے بے چین بھی ہوتے ہیں. اسی طرح سے سیاست میں سیاسی جماعتوں کے سپوٹران ہوتے ہیں. جو اپنی اپنی سیاسی جماعت کی جیت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں.
ان کا لگاؤ کسی ایک سیاسی جماعت سے ہوتا ہے. اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا. کہ وہ دوسرے کو اپنا دشمن تصور کرنا شروع کر دے. ہمارے ہاں ایسا کلچر پروان نہیں چڑھا. ایک سیاسی جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر ہم لوگ دیگر سیاسی جماعتوں کے ورکرز کو اپنا جانی دشمن تصور کرتے ہیں.
حالانکہ وہ بھی ہماری طرح جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں اپنی سیاسی قیادت سے. سیاسی جماعتوں کا بنیادی مقصد الیکشن میں فتح یاب ہونا ہوتا ہے.
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنا اپنا سیاسی منشور ترتیب دیتی ہیں. جس میں وہ اپنی ترجیحات کا ذکر کرتیں ہیں.
ان کے ورکرز اس منشور پر دل و جان سے عمل پیرا ہو جاتے ہیں. اور اس کی جیت کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دیتے ہیں. اس سارے کھیل میں عام عوام کا کوئی کردار نہیں ہوتا.
وہ تو کھوکھلے نعروں میں آکر اپنا ووٹ ڈال دیتی ہے. اقتدار میں آنی والی سیاسی جماعت اپنے سیاسی مخالفین کو نست و نابود کرنے کی جدوجہد میں لگ جاتی ہے.
جس کے نتیجہ میں ملک میں انارکی پھیل جاتی ہے. اس انتشار کی صورت حال میں ملکی معیشت کا بھی بیڑا غرق ہو جاتا ہے. ہماری قوم جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ فارغ بھی ہے. جو الیکشن سے لیکر آگے پانچ سال تک آپس میں دست و گریبان رہتی ہے. ہونا تو یہ چاہیے. کہ الیکشن میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت کی حکومت سازی کے بعد سب اپنے اپنے کاموں پر توجہ دے. ہارنے والی سیاسی جماعت کے ممبران جو اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں. ان کا فرض ہوتا ہے. کہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر ایوان کے اندر احتجاج کرے . جو کام انہوں نے کرنا ہوتا ہے. وہ کام پوری قوم سڑکوں پر شروع کر دیتی ہے . جس سے آپس میں مزید رنجشیں پیدا ہو جاتیں ہیں. ہماری سیاست میں برداشت کے کلچر کے فقدان نے ہماری ملکی جڑوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے. آج کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں. کوئی بھی اپنی سیاسی قیادت کے حق میں بات کرتا ہے. تو دوسرا اس کو اپنا دشمن تصور کرتا ہے. بلاشبہ سبھی محب الوطن ہے. کسی کی بھی محب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا. سیاسی وابستگی کی تفریق ضرور ہے. اور یہ ہونا بھی چاہیے. کیونکہ جمہوریت کی بقاء کے لیے اختلاف رائے ہونا ضروری ہے. اگر کوئی حکومتی پالیسیوں پر مثبت اور جائز تنقید نہیں کرے گا . تو وہ سیاہ و سفید کی مالک بن جائے گی. بحثیت سیاسی ورکر ہم سب کا فرض ہے. کہ ایک دوسرے کی رائے کو احترام دے.سیاست دان بھی ہم میں ہی سے ہیں. کوئی غیر ملکی نہیں. مگر حسد. بغض نے انہیں اس قدر اندھا کر دیا ہے. کہ وہ ایک دوسرے کی مخالفت میں ملکی مفادات تک کو قربان کرنے کی حد تک چلے جاتے ہیں. یہ سب کچھ محض اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد میں کیا جاتا ہے. مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا. آیندہ کسی اور کے حصہ میں یہ اقتدار آ جاتا ہے. پھر وہی آپ کو غدار وطن کا لقب دے رہا ہوتا ہے. عوام اور سیاسی قیادت کو آپس میں مل بیٹھ کر سیاسی لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے. کہ جس کو عوام کی اکثریت ایوان میں پہنچا دے. اس کے مینڈیٹ کی عزت کی جائے گی. چور راستے استعمال نہیں کیے جائے گے. مگر ہمارے ہاں شکست خوردہ سیاسی جماعتیں دھاندلی کا شور مچا کر عوام میں انتشار پیدا کرتیں ہیں. جس سے ملکی استحکام کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے. بیشتر اوقات غیر جمہوری قوتوں کو کھل کر اپنا گھناؤنہ کھیل کھیلنے کا موقع میسر آ جاتا ہے. ہماری سیاسی قیادت کو اپنے ورکرز کی سیاسی تربیت پر توجہ دینا ہوگی. ان میں سیاسی شعور پیدا کرے. نہ کہ انتشار، نفرت کی آبیاری کرے. یہ انتشار اور نفرت کی سیاست کسی کے حق میں نہیں ہوتی . یہ ایک دن اپنے گھر کو بھی جلا دیتی ہے. عوام کو بھی ہوش کے ناخن لینا ہوگے. ایک دوسرے کے نقطہ نظر کی قدر کرنا سیکھنا ہو گا. سبھی ایک نقطہ نظر پر متفق نہیں ہو سکتے. جو جدھر ہے. اس کے جذبات کی قدر کرنا سیکھے. جس دن ہم نے ایک دوسرے کے نقطہ نظر کی قدر کرنا شروع کر دی. ہماری نصف سے زائد پریشانیاں اور مصیبتیں خود بخود حل ہو جائیں گی. سوشل میڈیا موجودہ دور میں موثر ترین ہتھیار ہے. اس کی مدد سے عوام کی ذہن سازی کا کام لیا جا سکتا ہے. مگر ہماری بدقسمتی کہہ لے. کہ ہم نے اس کو بھی منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے. ایسا ایسا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے. کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے. ستم ظرفی تو یہ ہے. کہ لوگ بنا تصدیق کیے. آنکھیں بند کرکے اس جھوٹ ہر عمل شروع کر دیتے ہیں. جس کی وجہ سے لوگوں کی منفی طرز ہر ذہن سازی کا عمل شروع ہو جاتا ہے. سوشل میڈیا پر ہر کسی کو اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی اجازت ہے. اگر کسی کو کوئی بات بری لگے. یا اس کی طبیعت کے مخالف ہو. تو اس کو نظر انداز کر دینا چاہیے. ناکہ اس پر منفی بیانات دینے شروع کر دے. ہر کسی کو اپنی سیاسی جماعت کے موقف کو بیان کرنے کا حق حاصل ہے . اگر آپ کسی بھی سیاسی جماعت سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں. تو دوسری سیاسی جماعتوں کے لوگوں کی پوسٹ پر منفی بیانات نہ دے. بلکہ ان کو نظر انداز کرنا سیکھے. آپ اہنا موقف پیش کرے. انہیں اپنا موقف پیش کرنے دے. حالات حاضرہ کے پروگراموں میں بھی سبھی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو مدعو کیا جاتا ہے. جو مدلل دلائل سے اپنا موقف پیش کرتے ہیں. ان کے موقف سے دوسرا اختلاف بھی کرتا ہے. مگر تہذیب کے دائرے میں رہ کر. ہم بحیثیت قوم اتنے جذباتی کیوں ہو جاتے ہیں. کہ دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے کی بجائے. اس کو اپنا جانی دشمن تصور کر لیتے ہیں. سیاست سے تحمل اور بردباری کو نکال باہر کرے. تو پیچھے تشدد اور انارکی ہی رہ جاتی ہے. ملک ترقی اور استحکام کے لیے ہمیں سیاست میں برداشت کے کلچر کو پروان چڑھانے کی اشد ضرورت ہے. گزشتہ 75 سال سے عدم برداشت کی بدولت ہم یہاں پہنچ چکے ہیں. خدارا اب ہی ہوش کے ناخن لے. اور سیاست کو سیاست سمجھ کر کرے. ناکہ ذاتی دشمنی سمجھ کر. جذباتی پن اچھی چیز ہے. مگر ہر جگہ ہر وقت اس کا استعمال خطرناک ہے. آئیے ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرے. اور ہاتھوں میں ہاتھوں ڈال کر ملکی ترقی و بقاء کی خاطر قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھے.

14/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-10-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.