وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے علاوہ کوئی بھی عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنے میں سریس نہیں۔ دیگر صوبوں میں پک اینڈ چوز کے فرسودہ سسٹم کے تحت سیاسی کارکنان پر نوازشیں، سفارشی بھرتیاں اور پوسٹنگ کا مطلب ہی حکومت سازی بنا ہوا ہے۔ جبکہ مریم نواز شریف تمام محکموں میں عالمی معیار کی جدت و شفافیت لانے اور عوامی فلاح و بہبود کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ مریم نواز شریف نے بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت کے خاتمے کے مشن امپاسل کو پاسیبل کر دکھایا۔آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن بہت حد تک سنئیر افسران کے لاڈلے اور کمائو پتر افسران سے بھی پنجاب کی جان چھڑوانے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ ورنہ ہمیشہ سے یہی چلتا آیا ہے کہ یہ فلاں سنئیر افسر کا بچہ ہے اسے ہر صورت من مرضی کی پوسٹنگ دینی ہے۔ تین سے چار دفعہ ایسا ہوا کہ صوبائی انتظامی سربراہ بغیر کسی سالڈ بیک گرائونڈ کے افسران کی پوسٹنگ آرڈر کرنا چاہ رہے تھے لیکن وزیراعلیٰ نے خلاف میرٹ فیصلوں پر عمل درآمد روک دیا ۔ نگران حکومت سے شروع ہونے والے “گینگ آف سیون” کے بیوروکریٹک مارشل نے جہاں حکومت سے عوام کا اعتماد خراب کیا وہیں سینکڑوں افسران بھی شدید تحفظات کا شکار تھے۔ مریم نواز اپنی دوراندیشی اور قابلیت سے کافی حد تک “گینگ آف سیون” کو من مرضی کے فیصلوں سے روکنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ گینگ آف سیون کے اثرورسوخ میں کمی سے ناصرف پنجاب میں میرٹ کا دور شروع ہوا ہے بلکہ افسران اور عوام میں بھی ایک دفعہ پھر سے حکومت پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ابھی بھی مذکورہ ’’گینگ آف سیون‘‘ درجنوں سنئیر سیٹوں پر جونئیر افسران لگا کر حصے وصول کر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ کو چاہئے کہ اپنی وزارت اعلیٰ سے پہلے کی تمام ٹرانسفر پوسٹنگ کا ازسرنو جائزہ لیں۔ خاص طور پر بیرونی فنڈنگ والی تمام پوسٹوں پر افسران کی تبدیلی کی جائے بلکہ انکا آڈٹ بھی کروایا جائے کیونکہ ان پوسٹوں پر تعینات سفارشی جونئیر افسران نے اربوں روپے کی کرپشن کرکے بیرونی فنڈنگ والے اداروں کے سامنے پنجاب اور پاکستان کا ایمج خراب کیا ہے اس لیے یہ کسی صورت رعایت کے مستحق نہیں۔ ٹرانسفر پوسٹنگ کو کارگردگی سے مشروط کرکے وزیراعلیٰ نے ناصرف افسران کو عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں فوکس کرنے کا پابند کیا بلکہ ٹرانسفر پوسٹنگ کی منڈی لگانے والے “گینگ آف سیون” اور سیاسی لٹیروں کی دکانیں بھی بند کر دی ہیں۔ کے پی آئی کی وجہ سے افسران میں زیادہ سے زیادہ سروس ڈلیوری کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اچھی کارگردگی والوں کو ڈبل سیلری اور اعزازی سند عطا کرکے اچھا کام کیا لیکن وزیراعلیٰ کو چاہئے کہ بری کارگردگی کرنے والوں کا سخت احتساب بھی ہونا چاہئے۔ کے پی آئی میں عوامی فیڈ بیک کو شامل کیے بن یہ کارگردگی رپورٹ ادھوری ہے کیونکہ کے پی آئی اسی صورت حقیقی اور میرٹ رپورٹ سمجھی جاسکتی ہے جب اس میں عوامی فیڈ بیک کے نمبر بھی شامل کیے جائیں۔ سٹیٹ لینڈ کی حفاظت اور تجاوزات کے خاتمے میں ناکام ہونے والوں کو آئندہ ہرگز فیلڈ پوسٹنگ نہ دی جائے۔ کے پی آئی کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ تین ماہ کی رپورٹ کے بعد ٹاپ فائیو کو انعام اور لاسٹ فائیو کو سزا دی جائے۔ یہ سلسلہ صرف ڈپٹی کمشنر تک نہیں رہنا چاہئے بلکہ کرپشن کنگ بنے اسسٹنٹ کمشنرز، پولیس کے ایس پیز اور ڈی پی او تک بھی ہو، اسی طرح تمام سیکرٹریز ،ڈی جی، ایم ڈی سمیت ہر سرکاری افسر کی ماہانہ کارگردگی رپورٹ بن رہی ہو۔ گذشتہ دو سال میں پنجاب پولیس نے 7ارب کی نئی گاڑیاں خریدیں ہیں اور ابھی مذید گاڑیوں کی ڈیمانڈ کی جارہی ہے، اسی طرح پندرہ سو کروڑ سے زائد سے تھانے تو کافی شاپ بن گئے لیکن پولیس کا عوام کے ساتھ رویہ بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ اس سے قبل کہ پنجاب پولیس گالی بن جائے پولیس میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ بچھاڑ کی ضرورت ہے۔ ٹریفک پولیس کی کارگردگی اتنی شرمناک ہے کہ پورے پنجاب کے سی ٹی او اور ضلعی ٹریفک افسران میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس نے غیر قانونی پارکنگ کی سرپرستی نہ کی ہو۔ ٹریفک پولیس میں سخت کریک ڈائون اور بھل صفائی کی ضرورت ہے۔ عثمان بزدار دور میں اہم پوسٹنگ انجوائے کرنے والے افسران پہلے سے بھی اچھی پوسٹنگ پر براجمان ہونے کے بعد ان افسران نے خود کو قانون اور احتساب سے بالا تر مخلوق سمجھ لیا ہے کہ چاہے کوئی بھی حکومت ہو اصلی حکمران وہی ہیں۔ اس لیے منفی سوچ کے حامل ان کرپٹ اور خود پسند افسران کا سخت احتساب ناگزیر ہے۔
مریم نواز کی کامیابی اور میرٹ کا اصل اور حقیقی آغاز اس دن ہوگا جس دن وہ کسی اور کے لگائے اور بٹھائے ہوئے اشرافیہ پرست افسران کی بجائے میرٹ پر نئے صوبائی انتظامی سربراہان کا انتخاب کریں گی۔ نئے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کی تعیناتی سے تعمیروترقی کا نیا دور شروع ہو گا۔ مریم نواز شریف جس طرح انتھک محنت کے ساتھ پنجاب کی عوام کی خدمت میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں وہ پنجاب کے کامیاب ترین وزیراعلیٰ کا اعزاز اپنے نام کرلیں گی۔ اس میں بھی دورائے نہیں کہ آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کی طرف سے وزارت عظمیٰ کیلئے مریم نواز شریف کے علاوہ کوئی موزوں آپشن نہیں۔ وزیراعظم کو اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے جس مستقل مزاجی اور جرات سے سخت فیصلے کرنے ہوتے ہیں مستقبل میں مریم نواز شریف کے علاوہ کوئی بھی ان معیارات پر پورا اترتا نظر نہیں آ رہا۔