ہم ہی اِن کے وارث اور محافظ ہیں

طلسم خیال۔۔۔طاہر قریشی

1

نو مئی بیس تئیس کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جس کی دُھول میں اِس سے پہلے موقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات دب کر رہ گئے تھے۔ اِن میں سب سے زیادہ قابل ذکر سانحہ رہا تھا دہشت گردوں کے ہاتھوں جی ایچ کیو کی اینٹ سے اینٹ بجانا۔ اس حملے کے ملزمان کو اگر پھانسی چڑھا دی جاتی تو نو مئی جیسا کوئی واقعی کبھی رونما نہ ہوتا بلکہ اس کے بعد ملک میں دہشت گردی کی جو بدترین لہر آئی تھی جس کے اثرات اب تک نظر آرہے ہیں یہ نہ نظر آرہے ہوتے۔ اگر کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان اور بٹے ہوئے دہشت گرد احسان اللہ احسان کو جہاں چڑیا بھی پَر نہیں مار سکتی تھی وہاں سے فرار نہ ہونے دیا جاتا تو آج اس دہشت گرد گروہ الخوارج کی پوری ”قیادت” اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوتی اور ملک بشمول پڑوسی ملک میں دہشت گرد اور خودکش بمبار تیار کرنے کے جو تربیتی مراکز اسلام کے تصورِ جہاد کو مسخ کرنے کی لیے بنے ہوئے ہیں وہ برقرار نہ رہ پاتے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ملک کے وسیع تر مفاد کا ڈھانچہ بنانے والے ایسی حکمت عملیاں بناتے ہیں جن کا ”سر ہوتا ہے نہ ہی پیر، چونچ ہوتی ہے نہ ہی دُم” ایسے ہی حکمت عملی بنانے والوں کے ہاتھوں قوم برس ہا برس سے بے وقوف بنی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ملک کی ترقی اور خوش حالی، بدحالی کا نشان بن کر رہ گئی ہے، ملک آگے بڑھنا شروع ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی ایسا واقعی پیش آجاتا ہے یا کوئی بھی منصوبہ، نقشہ یا خاکہ ترتیب دے دیا جاتا ہے جو اِن ثمرات کی فصل کو اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
اگرچہ نو مئی کے واقعات کی ویسی تحقیقات نہیں کی گئی جیسی ہونی چاہیے تھیں، نہ ہی اُن ویڈیو فوٹیجز کو سامنے لایا گیا جس میں ملوث بڑی تعداد میں مجرموں کا سراغ مل سکتا جو اِس سب میں ملوث پائے گئے اور انہیں پہلے چند دنوں تک ویڈیوز کی شکل میں دکھایا جاتا رہا تھا جن کے اصل یا نقل ہونے کی بات بعد کی تھی کہ ان ویڈیوز کا بھی فرانزک کرایا گیا کہ نہیں کہ ان کی اصلیت سامنے لائی جاسکے کیونکہ عوام میں ان ویڈیوز نے جو گہرے اثرات چھوڑا تھے اسے پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات کا حصہ بنا لیا تھا۔ بہرحال یہ امر خوش کن قرار دیا جاسکتا ہے کہ نو مئی واقعات کے حوالے سے جہاں ملزمان کو مجرم سمجھتے ہوئے دس سال تک کی سزائوں سے ہم کنار کیا گیا وہیں اب اِس واقعہ کے انیس مجرمان کی سزاؤں کی معافی کا اعلان کردیا گیا ہے اور کچھ لوگوں کی رہائی عمل میں بھی آچکی ہے اور اِس سانحہ کے مجرموں کی سزاؤں پر عمل درآمد کے دوران، کئی مجرمان نے قانونی حق استعمال کرتے ہوئے رحم اور معافی کی درخواست دائر کیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق مجموعی طور پر سڑسٹھ مجرمان نے رحم کی درخواست دائر کیں۔ اڑتالیس درخواستوں کو قانونی کارروائی کے لیے ”کورٹس آف اپیل” میں نظر ثانی کے لیے ارسال کردیا گیا۔ انیس مجرمان کی درخواستوں کو خالصتاً انسانی بنیادوں پر قانون کے مطابق منظور کیا گیا۔ جبکہ اب دیگر مجرموں کی جانب سے دائر کی جانے والی رحم کی درخواستوں پر عمل درآمد مقررہ مدت میں قانون کے مطابق کیا جائے گا۔ مجرمان کو ضابطے کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد رہا کیا جا رہا ہے اور دیگر تمام مجرمان کے پاس بھی اپیل کرنے کا حق جبکہ قانون اور آئین کے مطابق دیگر قانونی حقوق برقرار ہیں۔ فوج کے ترجمان کے بقول ”سزاؤں کی معافی ہمارے منصفافہ قانونی عمل اور انصاف کی مضبوطی کا ثبوت ہے۔ یہ نظام ہمدردی اور رحم کے اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔” اس سے قبل اپریل بیس چوبیس میں قانون کے مطابق انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بیس مجرمان کی رہائی کا حکم صادر کیا گیا تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ کل تک جو لوگ فوجی عدالتوں کو جائز قرار دیتے رہے ہیں آج وہی بڑھ چڑھ کر اس کی مخالفت کررہے ہیں جس پر کئی اطراف سے تنقید کی جارہی ہے، یہاں معاملات کو الجھایا جارہا ہے، کل تک سیاسی کارکنوں کو سزائیں نہیں دی گئی تھیں اب لاکھ کہا جائے سزا پانے اور رہا ہونے والے بہرحال سیاسی کارکن ہیں جنہوں نے جوش جذبات میں آکر توڑ پھوڑ کی اور قانون کو ہاتھ میں لیا تھا اب وہ تائب ہوچکے ہیں اور انہیں سمجھ آگیا ہے کہ کچھ بھی ہو ادارے اور عمارتیں بھی ہماری اپنی ہی ہیں کوئی دشمن ملک کی نہیں اور یہ ہمارے ہی ادا کیے گئے ٹیکس سے بنائی گئی ہیں، ہم ہی اِن کے وارث اور محافظ ہیں۔ جہاں تک شائستہ انداز میں احتجاج کی بات ہے تو بلاشک و شبہ ایسا ہی پُر امن احتجاج ہونا چاہیے جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اس کی ایک جھلک دکھائی کہ انہوں نے بیرون ملک دورے میں کچھ آوازیں سنیں ”اوووووں، اوووووں” پتہ چلا کہ مزدوروں کو تنخواہ نہیں ملی اس لیے وہ کام کے دوران احتجاج کررہے ہیں۔ اس امر کی وزیرِ اعظم نے ستائش کی۔ ماضی قریب کی بات ہے جب ایک جماعت نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا اور اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور اسی سے جلا پاتے ہوئے سرکاری ٹی وی پر بھی بعد میں حملہ کیا گیا پھر نو مئی کا واقعہ وقوع پذیر ہوا۔ سب واقعات میں ایک قدر مشترک ہے کہ اس سے پہلے اس ”اووووں، اووووں” طرز احتجاج کا کسی کو علم نہ تھا وگرنہ یہ سانحات نہ ظہور پذیر ہوتے۔ اب لازم ہے جو بھی احتجاج کرنا چاہے وہ یہی طریقہ اپنائے، جب اُن سے کوئی پوچھنے آئے خواہ وہ صدر مملکت ہوں، وزیرِ اعظم ہوں یا وزرائے احتجاج کرنے والے ایک ساتھ ”اووووں، اووووں” کرکے بتا دیں کہ مسئلہ کیا ہے۔
یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے، کیا ہے
یہ لوگ دھوپ میں کیوں ہیں شجر کے ہوتے ہوئے
لیکن اِس سے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.