خودی کی تکمیل

تحریر: خالدغورغشتی

0

ہر نعمت ہونے کے باوجود بھی بعض لوگوں کو اطمینان قلبی مُیسر نہیں ہوتا، دراصل دلوں کا اطمینان تو ذکر الہی میں مخفی کر دیا گیا ہے۔ جب ہم اس پاک ذات کو بھول جاتے ہیں تو سب کچھ پا کر بھی بے یقینی کی سی کیفیت سے دو چار رہتے ہیں۔ اس کی بڑی وجوہات ہوسکتی ہیں کہ ہم اکثر بے سکونی کا شکار کیوں رہتے ہیں؟ جن میں سے ایک وجہ اللہ کے ذکر سے دوری اور مخلوق خدا سے لا تعلقی بھی ہے۔

بڑے بڑے پلازوں، بنگلوں اور گاڑیوں کے باوجود ذہنی سکون کا میسر نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے اندر کوئی کمی ہے۔ کہیں ہم دُکانوں یا مکانوں کے کرایے زیادہ کر کے لوگوں کی حق تلفی کر کے بد دعاؤں کے حق دار تو نہیں ٹھہر رہے؟ اپنے رشتے دار اور پڑوسیوں کی گریہ زاری اور مجبوری کا علم ہونے کے باوجود ہم ان کی داد رسی کرنے کی بجائے ان کو مجبور دیکھ کر شادماں ہو رہے ہیں تو یہی سے کہیں ہماری پریشانی کا کہیں آغاز تو نہیں ہو رہا۔ یاد رکھیں ہمیں تو درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا تھا ورنہ عبادت کے لیے فرشتے اور جنات ہی کافی تھے۔

آج ہم پلازوں اور گاڑیوں کے ہم مالک ہیں جب کہ ہمارے باپ دادا کی اکثریت ایسی تھی، وہ ایک پختہ کمرہ تعمیر کرنے یا سائیکل خریدنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ ان کے پاس تو بنیادی انسانی سہولیات کی بھی کمی تھی۔ اگر راتوں رات آپ غیروں کی غلامی کر کے یا اپنوں سے لوٹ مار کر کے امیر کبیر ہو ہی گئے ہیں تو اپنے گریبان میں ایک بار ضرور جھانکیں؟ آپ کے پاس کون سے ایسی جادو کی چھڑی ہے جس نے راتوں رات آپ کی نَیّا پار لگا دی ہے۔ کہیں آپ کسی پر ظلم کر کے، کسی بیوہ، کسی یتیم کسی لاوارث کی جائیداد پر قبضہ کر کے، غیر مسلم ممالک میں ہیں تو ان کے تلوے چاٹ کر، گھر، گاڑیوں کی انشورس کروا کر، بیماروں، لاچاروں، اپاہجوں کے نام پر فنڈز وصول کر کے، بچوں کی پیدائش کے وقت یا کسی کی وفات پر ملنے والی امداد، دکانوں، مکانوں کے کرایے بڑھا کر، یا کسی بھی کاروبار میں ڈنڈی مار کر تو آگے نہیں بڑھے؟ اگر یہی باتیں ہیں تو اتنے نخرے مت دکھائیے، جن کو کوئی فن نہیں آتا وہ ہم لوگ ہیں۔ ہمارے پاس کون سی تعلیمی قابلیت، ہنر اور روزگار ہے جس پر ہم اکڑتے ہیں؟ نہ ہمارے پاس جدید تعلیم ہے، نہ ہنر، نہ موجودہ حالات کے مطابق قابلیت، بس ہے تو دھوکا دہی اور دوسروں کی جیب پر نظر۔ کوئی ایک تو جگہ بتائیے، جہاں ہم نے بغیر کسی ہیرا پھیری کے خود کو سو فی صد کامیاب کیا ہوا۔ انسان اپنی جگہ بدل سکتا ہے عادت نہیں کیوں کہ بچھو کا کام ڈسنا ہی ہوتا ہے۔

ابھی ایک خبر موصول ہوئی کہ مکہ مکرمہ ریجن کی پولیس نے 10 پاکستانی باشندوں کو مالی فراڈ کے واقعات کا ارتکاب کرنے پر گرفتار کیا ہے۔ انھوں نے مبینہ طور پر تقریباً 31 مالیاتی فراڈ کے واقعات کے ارتکاب کے بعد جعلی سونے کی سلاخوں کی فروخت کی ہے۔ انھوں نے دھوکہ دہی کی کارروائیوں میں 2.8 ملین ریال سے زائد رقم جمع کی۔ مکہ مکرمہ ریجن پولیس کے ایک بیان کے مطابق جعلسازوں نے سونے کی سلاخیں رکھ کر مجرمانہ انداز اپنایا اور اپنے متاثرین کو دھوکہ دے کر انھیں غیر قانونی طریقوں سے بیچا۔ بتایا جارہا ہے کہ سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں سادہ لوح لوگوں کو سونا دیکھا کر تانبہ بیچنے والے دس پاکستانی گرفتار، دھوکے بازوں نے اب تک 28 لاکھ روپے کا فراڈ کر چکے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اس زوال کے ذمہ دار ہیں۔ ہر فرد کسی نہ کسی شکل میں ظلم، نا انصافی، یا بد دیانتی میں ملوث ہے۔ کاروبار میں دھوکہ دہی، نوکری میں غیر ذمہ داری، اور روزمرہ زندگی میں وعدہ خلافی جیسے رویے عام ہیں۔ ہم دوسروں کی حق تلفی کو معمول بنا چکے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ایمان داری سے نبھانے کی بجائے اپنے مفادات کے لیے اصولوں کے خلاف ورزی کرتے ہیں۔ یہی وہ رویے ہیں جو معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو کمزور کرتے ہیں اور اجتماعی سطح پر بے انصافی، کرپشن اور بدعنوانی کو فروغ دیتے ہیں۔
کہا جاتا ہے جیسا کرو گئے ویسا بھرو گے اور جیسے عوام ہوں گے ویسے حکمران ہوں گے۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ اگر حکمران کرپٹ ہیں تو وہ ہمارے ہی اعمال کی سزا ہیں۔ ہم ذاتی طور پر ایمان داری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر معاشرتی سطح پر دیانت داری کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟کرپشن صرف مالی بے ضابطگی نہیں بلکہ وعدوں کی خلاف ورزی، کام میں غفلت، دوسروں کے حقوق کی پامالی اور ذاتی مفادات کو اجتماعی بھلائی پر ترجیح دینے جیسے رویے بھی اس کا حصہ ہیں۔ معاشرے کی اصلاح کا آغاز دوسروں سے توقع رکھنے کی بجائے خود سے کرنا ہوگا۔ انفرادی سطح پر دیانت داری، ذمہ داری اور انصاف کا راستہ اپنائیں تو یہی روش پورے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کا سبب بنے گی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تبدیلی کا عمل بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے۔ جب ہر شخص اپنی ذمہ داری کو ایمان داری سے نبھانے لگے گا، تو معاشرہ خود بہ خود ایک مہذب، منصف اور پُر امن شکل اختیار کر لے گا۔ اللہ ہمیں اپنی خودی کو درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.