لاس اینجلس کی آتش اور ہمارے عوامی ڈائیلاگ
صاحبزادی فقیر محمد ندیم باری سینیئر صحافی، لکھاری تحریر ۔
بحیثیت قوم ،ہم ذہنی طور پر ایسی پسماندگی میں چلے گئے ہیں کہ لگتا نہیں ہے کہ تعلیم نے ہمارا کچھ بگاڑاہے،یا کہیں کوئی روشنی ہمارے ذہن کے قریب سے گزری ہو۔بہت ہی عجیب المیہ ہے کہ ہم اب کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ایک قوم ہونے کے ناطے ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہمارے ڈائیلاگز دنیا میں بھی نشر کیے جاتے ہیں اور پوری دنیا میں لوگ سوچتے ہوں گے کہ پاکستانی قوم کس قسم کی گفتگو پیش کر دیتی ہے،جس بات کے حوالے سے ہمارا عملی تجربہ بھی نہیں ہوتا اور ہمارے ذہن پر کوئی دستک بھی نہیں ہوتی اور ہم اس کے بارے میں بیان ضرور دیتے ہیں وہ بھی عالمی لیول پر۔ یہ تو وہی مثال ہو گئی کہ گاؤں میں چوہدری کے گھر چوری ہو جائے تو کمی کمین کہتے ہیں کہ یہ چوہدری کے گناہوں کی سزا ہے۔یاد رکھیے اگ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔اگ ایسی چیز ہے جو کہ 2007 میں بہاولپور ائل ٹینکر سے ڈیڑھ سو لوگوں کو جلا ڈالتی ہے۔1997 میں 300حاجیوں کو جلا ڈالتی ہے۔اور پچھلے دنوں لاس اینجلس میں 10 لوگوں کو فوری جلا ڈالتی ہے۔ میں بات کر رہی ہوں لاس اینجلس میں پھیلی ہوئی ازمائش کی۔کیلیفورنیا میں جنگلات کی وجہ سے ایسی اگ اکثر لگتی رہتی ہے۔دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو،عوام ،عوام ہی ہوتی ہے۔ہر انسان پوری زندگی بہت زیادہ محنت کرتا ہے تو گھر خریدنے کے قابل ہوتا ہے۔چونکہ میں نے زندگی میں ہمیشہ سے روزگار کیا اور بہت سے مکان اللہ نے مجھے دیے تو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ گھر بنانے کے لیے ایک ایک اینٹ خریدنے پر الگ الگ محنت کرنی پڑتی ہے اور پھر خدا تعالی گھر عطا کرتے ہیں،اور گھر کو بنانے کے بعد انسان اس گھر کی ایک ایک چیز خریدنے کے لیے تمام عمر لگاتار تگ و دو کرتا ہے تو گھر مکمل ہوتا ہے۔یہ ایک جان لیوا مرحلہ ہے کہ انسان اپنا گھر، بغیر کسی امداد اور وراثت کے بنا سکے۔تو ہم کیسے لوگ ہیں کہ وہاں عوام کے گھر جل گئے اور ہم اپنے اپ کو اور پوری دنیا میں لوگوں کو یہ بتا کر مطمئن ہو رہے ہیں کہ لاس اینجلس میں اللہ کے عذاب کی وجہ سےگھر جل گئے۔غزہ کے معاملات کو لاس اینجلس کے گھروں سے جوڑ کر خوش ہو رہے ہیں۔میں یہ نہیں کہتی کہ غزہ کے لوگوں کے ساتھ ایسا ہونا چاہیے تھا۔بلا شبہ جو کچھ ان کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ ایک بڑی ازمائش کا سلسلہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ان کو اسانی ملے۔کیا ہم اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ ہم اتنے اچھے ہیں تو پوری پاکستانی قوم نے غزہ کی عملی امداد کے لیے باقاعدہ کچھ اقدامات لیے ہوں۔غزہ کے معاملات کو بھی تو ہمارا ملک اور اس کے عوام زبانی کلامی ہی نبھا رہے ہیں یا کمزور لوگوں کی طرح جاے نماز پر بیٹھ کر اسرائیل کے لیے بددعائیں کر رہے ہیں جو کہ کسی بھی قوم کی کمزوری اور غیر عملی ہونے کا اخری درجہ ہو سکتا ہے۔لیکن بات یہ ہے کہ جو معاملات لاس اینجلس میں اس وقت ہو رہے ہیں ان میں بھی ہمارے جیسے لوگوں کے، پبلک کے ہی گھر جل رہے ہیں اور ان کے بچے روٹی سے محروم اس وقت در بدر ہیں۔جن کے گھر جلے ہیں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ غزہ کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہونی چاہیے۔جن کے گھر جل رہے ہیں انہوں نے جا کر غزہ میں ازمائش طاری نہیں کی تھی۔کیا لاس اینجلس میں اگ لگنے سے غذا میں پھیلی تباہی کم ہو جائے گی۔کیونکہ ہم ایک ارام طلب اور سوچ سے عاری قوم بن چکے ہیں جو کہ صرف ڈائیلاگز پر سہارا لیتی ہے اور وہ بھی منفی ڈائیلاگز جن کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ہر بزرگ کا تجزیہ ،فہم کے قابل نہیں ہوتا کچھ بے وقوف لوگ بھی تو بوڑھے ہو گئے ہوں گے۔ہم اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ یہ جان سکیں کہ حکومتی لیول پر جو معاملات یا جو فیصلے کیے جاتے ہیں عوام کا اکثر ان سے کم ہی تعلق ہوتا ہے۔اگر امریکہ نے اسرائیل کی تائید کی بھی ہے تو وہ حکومتی سطح پر ہے عوام نے اس میں کوئی حصہ نہیں ڈالا ہوا۔اس وقت لاس اینجلس میں جو مکانات جل چکے ہیں اور جتنا نقصان ہوا ہے وہ پبلک لیول پر ہوا ہے۔اور اس میں بہت سے فنکاروں کے مالی نقصانات ہوئے ہیں۔جن کے بارے میں ہمارے عوام عجیب و غریب تاثرات دے کر اپنے دل کو بہلا رہے ہیں۔کہ فلمی لوگوں کے گھر جل گئے اب ہم یہ نہیں جانتے کہ فلم بنانے والے کس قسم کی محنت کرتے ہیں اور یہ شعبہ کیسا سخت ہے۔اگر میں نے زندگی میں فلم میں کام نہ کیا ہوتا اور فلم کے لوگوں سے نہ ملی ہوتی تو شاید میں بھی اس شغل میں شامل ہو جاتی لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ فلم کسی بھی ملک کا ایک بنیادی شعبہ ہے۔کسی بھی ملک کی فلم اور فلم انڈسٹری، اس کی معیشیت کا ایک باقاعدہ بڑا حصہ ہوتی ہے اور ہائی لیول کی مارکیٹنگ پر مبنی ہوتی ہے۔فلم میں کام کرنے والے اور فلم کو بنانے والے عام ذہن کے مالک نہیں ہوتے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر قسم کے حالات میں بڑی شدید محنت کرنے کے عادی ہوتے ہیں تو فلم تک پہنچتے ہیں اور خداوند کامیابی دیتا ہے۔اگر وہاں پر فنکاروں کے گھر جلے ہیں تو ہمیں اس میں دلی طور پر ان کے ساتھ شامل ہونا چاہیے کہ ازمائش برحق ہے کسی پر بھی ا سکتی ہے۔ازمائش ہمیشہ اللہ کی جانب سے ہوتی ہے اور دنیا کی کسی بھی خطے پر طاری ہو سکتی ہے،اللہ نہ کرے کہ کل ہم پر ازمائش ہو اور دنیا ایسی باتیں کرے تو میرا نہیں خیال کہ ہماری قوم ایسے گفتگو کو برداشت کر سکے گی۔ہر ایک کی اپنی اپنی ازمائش ہے،اپنی اپنی نوعیت کی تکلیف ہے،ہر ایک کو اس کے اپنے حوالے سے اللہ تعالی نے نعمتیں بھی عطا کی ہیں۔اس کے اعتبار سے اپنی